خواجہ سرا اور خالق کی مرضی


کچھ عرصہ قبل شدید جاڑے کے موسم میں، دکان سے باہر بیٹھا سورج کی گرم شعاعوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک بازار کے ہجوم میں۔ ایک گم سم فرد دیکھا۔ یہ ایک غیر ارادی نظر تھی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی انجان اور اجنبی ہو۔ اسے ابھی ابھی ایک دوسری دنیا سے ٹھیک اسی جگہ اتارا گیا ہوں جہاں وہ کھڑا تھا۔ چپ ایسے کہ جیسے منہ میں زباں ہی نہ ہو، بس ایک ہاتھ کچھ فاصلے سے ہر راہ گزرتے آدمی کے سامنے پھیلا دیتا۔ واضح نظر آ رہا تھا کہ وہ بھیک نہیں مانگنا چاہ رہا۔ مگر تاثر یہ تھا کہ وہ کسی حکم کی تعمیل کر رہا ہوں۔ اسے یہ حکم بجا لانا ہے۔ یہ فرض ادا کرنا ہے کہ جیسے آسمان سے کوئی حکم ہو۔

اس کے چہرے کے اضطراب سے اس کے احساسات پڑھے جا سکتے تھے مگر ہمارے معاشرے میں۔ اور میں کچھ فاصلے پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان دیکھا کر رہا تھا۔ اس مظلوم کے کرب و پشیمانی اور محرومیوں کو محسوس کر کے بھی بت ہی رہنے کی کوشش میں تھا کیونکہ اس کی آنکھوں میں کچھ سوالات تھے۔ جن کو پڑھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ کچھ شکوے تھے جو خالق سے بھی تھے اور انسانوں سے بھی۔ اور اس آزمائش سے بھی جو کہ خالق کی مرضی تھی۔ اس کی حد درجہ کوشش تھی کہ وہ اپنے آپ کو مطمئن اور خوش دکھانے کی ادا کاری کرے۔

شاید بات خالق تک کی ہی ہوتی تو ٹھیک تھا مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا کے خالق کی بستی میں عجیب رواج پروان چڑھے ہیں۔ زبانیں تو درکنار دلوں کو بھی ٹٹولا جا تا ہے۔ مظلوموں اور لاچاروں کی زبانیں سوالوں اور شکووں سمیت ہی کھینچ دی جاتی ہیں اور وہ۔ تو تھا ہی تیسری مخلوق۔ اسے اس آزمائش کے ساتھ جینا تھا۔ وہ اس معاشرے میں جینے کے طور طریقے سیکھ رہا تھا۔ مگر کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور چھلک رہی تھی کہ اے خالق۔ انسانوں کی دھرتی میں، میں بھی تیری مخلوق۔

بے شک میں تیری رضا پر راضی۔ مگر اے میرے خالق۔ کاش تو بھی میرے ساتھ اس دھرتی کا ہی باشندہ ہوتا۔ بظاہر احساسات اور خواہشات سے عاری نظر آنے والا یہ فرد اپنے اندر محرومیوں، کرب و رنج، احساس کمتری، خواہشات، اور سسکیوں کا بے رحم سمندر رکھ کھڑا تھا۔ مگر یہ بات اسے بھی سکھائی گئی تھی اور مجھے بھی۔ کہ ہاں۔ یہی خالق کی مرضی ہے۔ بدترین کہاوت جو ہماری تہذیب نے گھڑی کہ خون ہی خون کا درد سمجھے۔ مگر یہاں ماؤں کی چھاتیاں چھونے سے پہلے ہی ان کو۔ عمر بھر نا ماں باپ نہ ہی بہن بھائی اور نہ ہی اولاد۔ ہاں یہی خالق کی رضا اور مرضی تھی۔

ایک دفعہ ایک خواجہ سرا بتا رہا تھا کہ خاندان سے کوئی ملنا ہی نہیں چاہتا سوائے ماں کے۔ کبھی کبھی چھپ کر ملنے آ جاتی ہے۔ ہاں یہی خالق کی مرضی اور رضا ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم صدیوں سے مرضی کے نام پر توہم پرستی کا شکار رہ رہ کر سفاکی، بربریت اور وحشت کا لبادہ مرضی کے نام پر اوڑھ کر اپنے آپ کو بری و ذمہ کرنے کی ایک ناکام کوشش میں ہیں۔ انسانیت تو ان سے سیکھیے کے مختلف خون، خاندان اور نسل سے اکٹھے رہ کر کر آپس میں دکھ درد، غم خوشی، ہمدردی اور انسانیت بانٹتے ہیں۔

اس دن مجھے احساس ہوا کہ ان کے لیے زندگی جینا کتنا دردناک اور اذیت بھری ہے۔ بے حس معاشرہ۔ طویل کٹھن زدہ زندگی اور در در کی بھیک۔ زندگی نہ ہوئی ایک ذلتوں اور محرومیوں بھری جہنم۔ اور پھر بھی خالق کی رضا پر راضی۔

چند روز قبل بھرے بازار میں ایک عورت خواجہ سرا کو اپنے دکھڑے سنا سنا کہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری زبان کالی ہے۔ دعا کرنا خدا تمہاری ضرور سنئے گا میری بیٹی کا گھر بس جائے۔ یہ سن کر مجھے بچپن کی وہ کہانیاں یاد آ گئیں۔ جن میں پڑھا کرتے تھے کہ مشکل وقت میں لاچاروں اور مظلوموں کی مدد کے لیے فرشتہ صفت انسان آیا کرتے تھے۔ میرے تصور میں وہ کوئی دلیر، طاقتور ہرکولیس تھا یا پھر چودھویں رات میں چاندنی سے مہکتی کوئی خوبصورت پری مگر یہاں تو۔ واقعی یہ انسان ہیں یا پھر؟ اور نہ جانے کیوں مجھے شدید احساس جرم اور ندامت محسوس ہوئی۔ ندامت سے بچنے کے لئے میں بھی انسانوں کی بھیڑ کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments