پاکستان میں “اصلی تے وڈی” جمہوریت آ گئی!


وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ مسترد کر دیا ہے کہ ملک میں چینی کی فراہمی بہتر بنانے اور چھوٹے صنعتکاروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کی جائے۔ نئے نویلے وزیر خزانہ حماد اظہر نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس ’فیصلہ‘ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھارت میں یہ اجناس باقی دنیا اور پاکستان سے ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں، اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

البتہ آج جب یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں زیر غور آیا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت شیخ رشید جیسے محب وطن اور شیریں مزاری جیسی انسان دوست کی اصول پسندی، قومی غیرت کا سوال بن کر سامنے آ گئی۔ حماد اظہر کو ورلڈ اکنامک فورم نے گزشتہ برس ضرور جنوبی ایشیا کے ’نوجوان عالمی لیڈروں‘ کی فہرست میں شامل کیا ہوگا لیکن وہ پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے سوال پر پاکستانی قوم کی ’اصول پرستی‘ کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اس لئے وفاقی کابینہ نے اپنے ہی ادارے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلہ کو مسترد کر دیا اور شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، شیخ رشید اور فواد چوہدری کے الفاظ میں طے کیا کہ ’بھارت کے ساتھ اس وقت تک تعلقات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی جب تک نئی دہلی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارتی دستور کی شق 370 بحال نہیں کرتا‘ ۔ اس شق کے تحت بھارتی تسلط میں کشمیری عوام کو کسی حد تک نیم خود مختاری حاصل تھی اور انہیں اپنے علاقے پر بعض مخصوص حقوق دیے گئے تھے۔ نریندر مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں یک طرفہ طور سے اس شق کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کر دیا تھا اور اس خطے کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے اور وزیر خزانہ کے اعلان کو وفاقی کابینہ میں جس طرح ملکی مفاد اور کشمیر کاز کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے، اس سے کئی دلچسپ پہلو سامنے آئے ہیں۔ ان میں اہم ترین تو یہی ہے کہ صرف پاکستان جمہوری تحریک میں شامل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی آپس میں دست و گریباں نہیں ہیں، حکومت کے ادارے بھی اہم معاملات پر اختلاف رائے کا پورا حق استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت حال کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی قیادت میں ’اصلی اور حقیقی‘ جمہوریت کو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مخالفین چاہے اسے عمران خان کا ایک اور ’یو ٹرن‘ کہتے رہیں لیکن دشمنوں کو بھی اس ’جمہوری‘ عمل سے انکار کا حوصلہ نہیں ہو سکتا کہ کابینہ اہم معاملات پر غور و خوض کے بعد ’خود مختاری‘ سے وہی فیصلے کرتی ہے جو اس کے نزدیک درست ہوں۔ حالانکہ اس معاملہ میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ بھی وزیر اعظم عمران خان تھے، انہی کی نگرانی میں اس کمیٹی نے بھارت سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کابینہ نے اس بات کا لحاظ نہیں کیا اور وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں ایک روز پہلے کیے گئے ای سی سی کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔

اس معاملہ کا یہ پہلو بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ وزیر اعظم ہی وزارت تجارت و ٹیکسٹائل کے نگران وزیر بھی ہیں۔ اسی وزارت نے بھارت سے کپاس درآمد کرنے کی تجویز دی تھی۔ کسی وزارت کا کوئی فیصلہ نگران وزیر کے دستخط کے بغیر ای سی سی میں غور کے لئے پیش نہیں ہو سکتا۔ پھر وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد ہونے والے ای سی سی کے اجلاس میں اس تجویز کو منظور کر لیا گیا تاہم آج عمران خان نے ہی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ای سی سی کے ایک روز پہلے کیے ہوئے فیصلہ کو مسترد کر دیا۔ اب شیریں مزاری اور فواد چوہدری اس بات پر قوت گفتار صرف کر رہے ہیں کہ عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں خود مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اگست 2019 کے فیصلے واپس لینے تک بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی تجارت بحال نہ کرنے کی رائے کا اظہار کیا۔ اس اہم معاملے پر عمران خان کی زبان اور ان کا ٹویٹر ابھی تک خاموش ہیں۔

کابینہ کے تازہ فیصلہ سے چینی کی قیمت اور صنعت کے لئے کپاس کی فراہمی کے مسئلہ سے زیادہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وفاقی کابینہ نے تین روز پہلے مقرر کیے گئے وزیر خزانہ کے پہلے اہم ترین اعلان کو تارپیڈو کیا ہے۔ اب شیریں مزاری میڈیا کو یہ باور کروا رہی ہیں کہ ’میڈیا کو اتنا تو پتہ ہونا چاہیے کہ ای سی سی کا کوئی مشورہ، اس وقت تک نافذالعمل نہیں ہوتا جب تک وفاقی کابینہ اسے منظور نہ کرے‘ ۔ گویا اس معاملہ میں بھی ملک کی فعال اور مستعد حکومت سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی بلکہ ملکی میڈیا اور صحافی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے پائے گئے کہ انہوں نے ’نو آموز‘ وزیر خزانہ کے اعلان کو خبر سمجھ لیا اور اسے نمایاں طور سے شائع و نشر کیا گیا۔ حیرت ہے کہ شیریں مزاری نے کابینہ میں اپنے جونئیر (عمر میں ) وزیر کو یہی مشورہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حماد اظہر نے یہ باریک نکتہ جاننا ضروری نہیں سمجھا کہ ای سی سی کا فیصلہ ابھی محض تجویز ہی تھا اور اسے ’قانونی‘ ہونے کے لئے کابینہ کے ’پل صراط‘ سے گزرنا تھا۔ وزیر خزانہ کے طور پر حاصل اختیارات کے جوش میں حماد اظہر کو اس کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے اس غلط فہمی میں ای سی سی کی تجویز کو ’حتمی‘ سمجھ کر نشر کر دیا۔ وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ ای سی سی کے مشوروں پر وفاقی کابینہ کی تصدیقی مہر محض رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ وزیر اعظم ہی کے حکم پر ای سی سی ایک فیصلہ کرتی ہے لیکن کابینہ کے اجلاس میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو وزیر اعظم کی رائے کے برعکس فیصلہ ہو گیا۔

حماد اظہر کے اختیار و اتھارٹی کی جو بھد اڑنا تھی سو اڑی، عمران خان اور حکومت کی حیثیت کے بارے میں نئے سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ ایسا انہی حالات میں ہوتا ہے جب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کسی شخص کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کس تجویز یا مشورہ پر دستخط ثبت کر رہا ہے۔ یا ملک میں فیصلے کرنے والے ادارے ایک سے زیادہ ہوں۔ یعنی کابینہ سے بھی اوپر کوئی اتھارٹی ہو جسے جب ایک حکومتی ادارے میں کیا گیا کوئی فیصلہ پسند نہیں آیا تو دوسرے ادارے یعنی کابینہ سے اسے مسترد کروا دیا۔ عمران خان کو اگر وزیر اعظم رہنا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ وہ سر تسلیم خم کرتے اور شاہ محمود قریشی اینڈ کمپنی کو میڈیا میں ڈینگیں ہانکنے کا موقع فراہم کرتے۔ ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں اسی قضیے کا ماتم کیا جاتا ہے۔

پاکستانی حکومت ڈیڑھ برس پہلے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بھارتی فیصلہ کو تبدیل کروانا چاہتی ہے۔ پوچھنا چاہیے کہ کیا کشمیر کے سوال پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں والی پاکستانی پوزیشن تبدیل ہو گئی ہے؟ کہ اب بھارتی آئین کی ایک منسوخ شدہ شق کو بحال کرنے کا مطالبہ آزادی کشمیر سے منسلک کیا جا رہا ہے؟ یادش بخیر اگست 2019 اس فیصلہ پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارتی حکومت کشمیر کے بارے میں کیا قانون سازی کرتی ہے کیوں کہ وہ اس علاقے پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور سے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف قابض ہے۔ پاکستان استصواب رائے، کشمیریوں کے انسانی حقوق کی حفاظت اور ان کے خلاف مظالم کا سلسلہ بند کروانے کے لئے کوشش کرتا رہا ہے۔ وفاقی کابینہ اب خود کو ایک ایسے معاملہ سے جوڑنے کا اعلان کر رہی ہے جس کا کشمیر کی حتمی حیثیت اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح عملی طور سے کشمیر کی آزادی کے مطالبہ کو بھارتی آئین کی ایک لولی لنگڑی شق کے تحت کشمیری عوام کو نیم خود مختاری دلوانے کے مطالبے سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ مطالبہ تو کشمیر کی بھارت نواز سیاسی پارٹیوں کا اتحاد بھی کر رہا ہے۔ پھر حریت پسند کشمیری لیڈروں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے اعلانات کیا ہوئے؟

ای سی سی اور وفاقی کابینہ میں یکے بعد دیگرے ایک ہی معاملہ پر دو متضاد فیصلوں سے بھارت کے ساتھ قیام امن اور خطے میں معاشی و مواصلاتی اشتراک و تعاون پر پاکستان کے اعلانات کی سنجیدگی کے بارے میں بھی شبہات پیدا ہوں گے۔ جب حکومت ہی کے دو ادارے بھارت کے معاملہ پر کسی ایک حکمت عملی پر قائم نہیں رہ سکتے تو پھر آرمی چیف کے اس اعلان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ جنگ کی بجائے امن کا راستہ تلاش کر کے ہی برصغیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا جاسکتا ہے؟ یہ معاملہ وفاقی حکومت کی کارکردگی، فیصلے کرنے کے ناقص طریقے، اہم ترین معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی اور ریاست کے اہم ترین اداروں کے درمیان تعاون کی ناقص صورت حال کی چغلی کھاتا ہے۔ ایک ناکام حکومت کے اور کیا اشاریے ہو سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments