ملتان: ایک ہی ہسپتال سے آنکھ کا آپریشن کروانے والے سات افراد کی بینائی چلی گئی، ’مجھے پیسے نہیں، میری آنکھ واپس چاہیے‘


آنکھ کا آپریشن

فائل فوٹو

’مجھے پیسے نہیں چاہیے، مجھے میری آنکھ واپس چاہیے۔ میں نے تو انھیں بتا دیا ہے کہ جب تک میری آنکھ کی بینائی واپس نہیں آتی آپ میرا ماہانہ وظیفہ لگائیں۔ جب میری بینائی واپس آ گئی تو ہماری صلح ہو جائے گی اور وظیفہ ختم۔‘

یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان کے ایک مضافاتی گاؤں کے رہائشی جیون خان کا۔ جیون نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی بینائی جا سکتی ہے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ان کی زندگی کتنی بدل جائے گی۔ اب یہ پریشان کن حقیقت ان کے سامنے ہے۔

گذشتہ چند روز سے ان کی بینائی سے محروم ہونے والی آنکھ سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے اور درد بھی نہیں رک رہا۔ انھوں نے ایک نجی کلینک کے ڈاکٹر سے مشورہ کیا جس نے انھیں بتایا کہ ان کی جس آنکھ کا موتیا ہٹانے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا اس میں بینائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔

جیون خان کے چار بچے ہیں، وہ رنگ روغن کا کام کرتے ہیں اور اس ہی سے ان کے گھر کا چولہا چلتا ہے لیکن اب ان کے پاس دیکھنے کے لیے صرف ایک آنکھ ہے۔ ان کو پریشانی ہے کہ اب وہ کام کیسے کریں گے؟

اس سے بھی زیادہ انھیں یہ وسوسہ ستا رہا ہے کہ اگر ان کی بچ جانے والی آنکھ کو بھی کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ کیا وہ اپنی بینائی مکمل طور پر کھو دیں گے؟

یہ بھی پڑھیے

’میری نظر مستقل دھندلائے ہوئے کیمرے کی طرح ہے‘

’بینائی جانے سے میرے ماں بننے پر کیا فرق پڑسکتا ہے‘

طبی عملے کی غفلت: ضابطہ اخلاق کیا ہے؟

جیون خان ان 11 افراد میں سے ایک ہیں جن کا حال ہی میں ملتان کے لئیق رفیق ہسپتال میں آنکھ کا موتیا ہٹانے کا آپریشن کیا گیا تھا تاہم آپریشن کے فوراً بعد ہی ان افراد نے شکایت کی تھی کہ ان کی متاثرہ آنکھ میں درد بڑھ گیا تھا اور متواتر پانی بہہ رہا تھا۔

ابتدا میں متعلقہ ڈاکٹر نے انھیں درد کم کرنے والی ادویات کھانے کا مشورہ دیا تھا تاہم جب درد اور سوجن کم نہ ہوئی تو انھوں نے دوبارہ ہسپتال سے رجوع کیا۔ معائنے کے بعد انھیں بتایا گیا تھا کہ ان کی اس آنکھ میں انفیکشن ہو گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی ان میں سے کم از کم سات افراد کو یہ خبر بھی سنائی گئی تھی کہ اس انفیکشن کی وجہ سے ان کی متاثرہ آنکھ مکمل طور پر بینائی کھو چکی تھی۔

ضلع ملتان ہی کے علاقے لاڑ کے رہائشی 47 سالہ عبدالمالک بھی ان افراد میں شامل ہیں جو ایک آنکھ کی بینائی کھو چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ صورتحال زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ان کی بچ چانے والی آنکھ پہلے ہی سے موتیا کا شکار تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالمالک کے بھائی محمد مصطفٰی نے بتایا کہ ان کے بھائی اس ارادے سے لئیق رفیق ہسپتال گئے تھے کہ پہلے ایک آنکھ کا آپریشن کروا لیں گے تاکہ وہ بہتر ہو جائے۔ اس کے دو یا تین سال کے وقفے سے وہ دوسری آنکھ کا بھی آپریشن کروا لیں گے۔

یوں ان کی بینائی جانے کا خطرہ ختم ہو جائے گا تاہم اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔

وہ کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے جہاں ان کی بینائی متاثر ہونے کی وجہ سے اب ان کا بڑا بیٹا بیٹھ رہا ہے جس کی عمر صرف 14 برس ہے۔

آنکھ کا آپریشن

فائل فوٹو

ان لوگوں نے آپریشن کیوں کروایا؟

محمد مصطفٰی نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ماہ عبدالمالک نے لئیق رفیق ہسپتال میں ڈاکٹر سے اپنی آنکھ کا معائنہ کروایا تھا۔ ڈاکٹر نے انھیں آپریشن تجویز کیا تھا اور گذشتہ ماہ کی 20 تاریخ کو اس کے لیے ہسپتال آنے کا کہا تھا۔

’جب وہ ہسپتال گئے تو وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ مرد اور خواتین ملا کر تقریباً 16 لوگ تھے۔ مردوں اور خواتین کو علیحدہ کر دیا گیا تھا اور پھر دو دو کر کے ان کو لے جاتے تھے آپریشن کے لیے جو کہ ایک ہال نما کمرے میں بنایا گیا تھا۔‘

محمد مصطفٰی نے الزام عائد کیا کہ ہسپتال میں غالباً آنکھ کے آپریشن کے لیے کوئی مستند ڈاکٹر یا سہولیات موجود نہیں تھی اور ان کا عارضی طور پر انتظام کیا گیا تھا۔

’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ آپریشن تھیٹر عارضی طور پر بنایا گیا تھا اور اس سے پہلے وہاں آنکھ کے آپریشن نہیں ہوئے تھے۔‘

جیون خان نے بھی اس سے ملتے جلتے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے جو شاید باہر سے آئے تھے اور ان کے ساتھ جو باقی ڈاکٹر تھے وہ چند جوان لڑکے لڑکیاں تھے جو زیادہ تجربہ کار نہیں لگ رہے تھے۔‘

خود ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا ان کی بینائی چلی گئی ہے

آپریشن کے بعد جیون خان اور عبدالمالک کو ایک ہی نوعیت کے مسائل کا سامنا تھا۔ ان دونوں کو اگلے روز آنکھ سے پانی بہنے کے ساتھ درد میں شدت آ گئی تھی۔

محمد مصطفٰی نے بتایا کہ ’میرا بھائی درد سے تڑپٹا تھا۔ میں نے جب فون پر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے جو دوا دی اس سے تین گھنٹے تک آرام آتا تھا اور پھر درد واپس آ جاتا تھا۔‘

بینائی

فائل فوٹو

وہ اگلے روز اپنے بھائی کو لئیق رفیق ہسپتال واپس لے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شور مچانے پر ان کے بھائی کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تھا جہاں ان کی آنکھ میں ہونے والے انفیکشن کا علاج کیا گیا۔

’لیکن خود ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ہمیں بتا دیا تھا کہ ان کی آنکھ کی بینائی چلی گئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ دعا کریں ان کا انفیکشن ٹھیک ہو جائے۔‘

ہسپتال نے ہیلتھ کارڈ کی تفصیلات لے لی تھیں

جیون خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں حال ہی میں پنجاب حکومت کا جاری کردہ ہیلتھ کارڈ ملا تھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ اس ہیلتھ کارڈ کے ذریعے وہ آنکھ کا علاج اور آپریشن بھی کروا سکتے تھے۔

’میں نے سوچا تھا ہیلتھ کارڈ سے یہ فائدہ تو ہو جائے گا۔‘

محمد مصطفٰی کے مطابق ان کے بھائی کے پاس بھی جب ہیلتھ کارڈ آیا تھا تو انھوں نے اپنی آنکھ کا علاج کروانے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہنے کو تو ہسپتال میں یہ آپریشن مفت ہوا تھا لیکن ’ہسپتال والوں نے ہم تمام مریضوں سے ہیلتھ کارڈ اور دیگر تمام تر تفصیلات لے لی تھیں۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ہسپتال کی کوتاہی کی وجہ سے ان کے بھائی کی بینائی چلی گئی تھی۔

ہسپتال سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی

ڈاکٹر علی عظمت عابدی لئیق رفیق ہسپتال کے ڈائریکٹر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اعتراف کیا کہ جن 11 افراد کے آپریشن کیے گئے تھے ان میں سے چند افراد کو انفیکشن ہو گیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان افراد کی متاثرہ آنکھ کی بینائی چلی گئی تھی۔

’ہمارے پاس ان میں تقریباً سات افراد آئے تھے اور چار مزید افراد کے بارے میں بھی معلوم ہوا تھا کہ وہ متاثر ہوئے تھے۔ ان تمام افراد میں انفیکشن ہو جانے کی وجہ اس ان کی متاثرہ آنکھ کی بینائی چلی گئی تھی جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے۔‘

ڈاکٹر علی عظمت کے مطابق یہ تمام شکایات سامنے آنے کے بعد ہسپتال نے اپنے طور پر پورے معاملے کی جانچ پڑتال کی تھی۔

’ہم پوری طرح مطمئن ہیں کہ ہسپتال نے آپریشن کے لیے ضروری تمام تر پروسیجرز پر عمل کیا تھا اور ہسپتال کی جانب سے کوئی کوتاہی نہیں کی گئی تھی۔‘

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی تحقیقات

صوبہ پنجاب کا ہیلتھ کیئر کمیشن جس کا کام صوبہ بھر کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں سیفٹی اور معیار کو یقینی بنانا ہے، اس نے بھی اس معاملے کی چھان بین شروع کر دی تھی اور اس کے لیے ان کی ایک ٹیم ملتان میں موجود تھی۔

لئیق رفیق ہسپتال ملتان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی عظمت کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے اپنے طور پر تحقیقات مکمل کر لی تھیں تاہم وہ کوئی بیان اس لیے نہیں دینا چاہتے کیونکہ پنجاب ہیلتھ کمیشن اور ضلعی ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں۔

’وہ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے اس سے وہ حکومت کو آگاہ کریں گے۔ ہم ان کے ساتھ ان تحقیقات میں مکمل تعاون کر رہے ہیں اور وہ جو بھی نتیجہ اخذ کریں گے ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔‘

ڈاکٹر علی عظمت عابدی کا کہنا تھا کہ انھوں ان تمام افراد کو بہترین طبی سہولیات مہیا کی تھی جو ان کے پاس آئے تھے۔

انفیکشن کی وجہ کیا بنی تھی؟

اس سوال پر کہ متاثرہ افراد میں انفیکشن ہونے کی وجہ کیا بنی، ڈاکٹر علی عظمت عابدی کا کہنا تھا کہ وہ ’اس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے۔ ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں بہتر ہے وہ خود بتائیں کہ کیا ہوا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن لاہور اور مقامی ادارے جو نتیجہ اخذ کریں گے انھیں منظور ہو گا۔

ڈاکٹر علی عظمت عابدی کے مطابق لئیق رفیق ہسپتال ملتان ایک ٹرسٹ ادارہ ہے جو منافع نہیں کماتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ہر ماہ سینکڑوں آپریشن کیے جاتے ہیں اور گزشتہ دس برس میں کبھی اس نوعیت کا واقعہ پیش نہیں آیا۔

’ہمارے پاس تمام تر ڈاکٹر مستند اور بہترین تعلیم یافتہ ہیں اور ہسپتال نے ہمیشہ ہر قسم کے معیار کو برقرار رکھنے کے تمام تر تقاضے پورے کیے۔ جنوبی پنجاب میں یہ اپنی نوعیت کا واحد ہسپتال ہے جس کا مقصد یہاں کے لوگوں کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنا ہے۔‘

تاہم عبدالمالک اور جیون خان کی طرح متاثر ہونے والے تمام تر افراد ان سوالوں کے جوابات کے منتظر ہیں کہ انھیں انفیکشن کیوں اور کیسے ہوا اور ان کی بینائی کھو جانے کا ازالہ کیسے ہو گا؟ اس کے لیے سب سے پہلے انھیں حکومتی تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp