کیا نظام فرسودہ ہے یا فرد قصوروار ہے؟



معروف گلوکار علی حیدر کا ایک مقبول گیت ہے کہ ”یہاں کا سسٹم ہی ہے خراب“ ۔ یہ سسٹم یا نظام آخر کس چڑیا کا نام ہے۔ یقیناً یہ ”چڑیا“ زیرک صحافی نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا سے مختلف ہو گی۔ اس ”چڑیا“ نے ہم سب کے ناک میں دم کیا ہوا ہے اور ہم ہر روز اسے ہی ہر نااہلی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

سسٹم یا نظام مقتدرقوتوں کے ہاتھوں تشکیل پاتا ہے۔ مقتدر قوتیں نامعلوم افراد پر مشتمل نہیں ہوتی ہیں بلکہ یہ سب جانی پہچانی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ان کے نام ہونٹوں پر لانے سے فانی انسانوں کی فنا یقینی ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی نظام یا آرڈر ان لوگوں کے فیصلوں سے مرتب ہوتا ہے جو اس نظام کو کسی بھی لمحے بدلنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو سپریم کورٹ سے سزایافتہ کے لئے جیل کا دروازہ وا ہو جاتا ہے اور وہ چند گھنٹوں بعد برطانیہ میں چہل قدمی کر رہا ہوتا ہے اور وہ نہ چاہیں تو ٹیم کے سر ناپسندیدہ کارکردگی کا لیبل چسپاں ہوتا رہے اور کپتان کو کلین چٹ ملتی رہے۔ ہم بے بس عوام ان کے حسن کرشمہ ساز کی تاب نہیں لا سکتے کیونکہ ہمیں تو جو کچھ ملا ہے وہ جی حضوری کے صدقے میں ملا ہے۔

ہمارے اداروں کے اندر بھی جو نظام موجود ہے ، اس کے خالق وہی ہیں جو فیصلہ ساز کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ ان ادارہ جاتی لیڈروں کے لئے ادارے کا نظام موم کی ناک ہے جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق جب چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ ادارے کی کارکردگی اگر غیر تسلی بخش ہو تو انہیں نکال باہر کر دیا جاتا ہے جن کا نظام کا نقشہ بنانے میں کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔

پانی ہمیشہ ڈھلوان کی جانب ہی بہتا ہے۔ اداروں کے سربراہ اپنے اداروں کے اندر اپنے گھر جیسا ماحول قائم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ سیٹھ صاحب کا بیٹا گھر میں بھی من مانی کرتا ہے اور اپنی کمپنی میں آ کر بھی سب کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے لیکن پھر بھی اس کی پیشانی پر بوسہ دیا جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر شاباشی کی تھپکی دی جاتی ہے۔

کوالٹی کے گرو ایڈورڈ ڈیمنگ نے ہمیں سمجھایا تھا کہ ہر لیڈر اور مینیجر کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کی ٹیم کے ہر رکن کی ایک انفرادیت ہے اور اسے وہ کام سونپنا چاہیے جو اس کی صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔ ٹیم کے ارکان کو جب ان کے مینیجر جانچ پڑتال کر کے برا، اوسط، اچھا اور بہت اچھا کا لیبل لگاتے ہیں تو پھر ان کی ٹیم کے ارکان بھی مینیجر صاحب کی توقعات کے عین مطابق ڈھلتے جاتے ہیں۔

ہمارے ممدوح ایڈورڈ ڈیمنگ یہ بھی کہتے کہتے جہاں فانی سے رخصت ہو گئے کہ فیکٹریاں مزدوروں کی نالائقی سے نہیں بلکہ انتظامیہ کی نا اہلی سے ڈوبتی ہیں لیکن باکمال لیڈر لاجواب سروس دیتے ہوئے مزدوروں کی بھاری تعداد کو نوکریوں سے نکال کر فیکٹری کے اس نظام کو خطرے سے محفوظ کر لیتے ہیں جو نظام درحقیقت ان کی منفعت کے لیے معرض وجود میں آیا ہے۔

کسی فرد کی کارکردگی اس نظام سے بہتر نہیں ہو سکتی ہے جس کا وہ حصہ ہے۔ دیوار اگر ٹیڑھی ہے تو اس میں لگنے والی کسی اینٹ کا سیدھا ہونا ممکن نہیں رہتا ہے۔ دیوار کسی کی خطا سے ٹیڑھی ترچھی نہیں ہوئی ہے بلکہ نقشہ سازوں نے اسے جان بوجھ کر سیدھا نہیں بنایا ہے۔ صراط مستقیم پر چل کر تو وہی حصے میں آئے گا جس کا ذکر مساوات محمدی ﷺکے نظام میں ہوا ہے لیکن جب اہلیت ایک نوالہ کھانے کی ہو اور نظر پوری دیگ پر ہو تو پھر نظام بھی وہ بنایا جاتا ہے جس میں پیر تسمہ پا کے وارے نیارے ہو جائیں اور جفاکش نان شبینہ کے محتاج رہیں۔

ہرانسان اپنے خانگی اور معاشی حالات کے تابع ہوتا ہے اور جب وہ اپنے دفتر یا فیکٹری میں پہنچتا ہے تو اس نظام کے تابع ہو جاتا ہے جو کمپنی کے مالکان نے تشکیل دیا ہوتا ہے۔ کمپنی کے مالکان اپنا کاروبار ملکی آب و ہوا کے مطابق کرتے ہیں اور ملکی آب و ہوا کو کون سا رخ دینا ہے تاکہ کسی کے لیے موسم خزاں کا آغاز ہو جائے او ر کوئی موسم بہار کی آغوش میں چلا جائے، یہ سارے فیصلے وہ کرتے ہیں جن کے پاس اتنی دولت و حشمت ہوتی ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل بھی ان کی نجی کمپنی میں مینیجر کے عہدے پر فائز ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

انصاف فراہم کرنے والے عدالتی نظام کو دیکھ لیں۔ یہ نظام وکلاء اور منصفوں کے دسترخوان پر دعوت شیراز کا اہتمام کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے اور سائلین کی مٹی پلید کرنے کے لئے وجود میں آیا ہے۔ تاریخ سماعت کا ایسا گھن چکر ہے کہ انصاف کے انتظار میں مقتول و قاتل عالم بالا میں یکجا ہو جاتے ہیں لیکن مقدمہ تاریخ سماعت کے پنگوڑے میں ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔ یہاں پر بھی اس نظام کے قانونی نمونہ ساز ہی قصوروار ہیں جو قانونی موشگافیوں کو پروان چڑھا کر اپنے رزق کا بندوبست کرتے ہیں۔

یہ سارانظام ہی ان کے لیے بنا ہے جو مخمل کے دستانے پہن کر نظام کا رخ جس طرف چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ جب سارے معاشرے میں ہی خام اور برہنہ طاقت کو تقویٰ پر ترجیح دی جائے گی تو لوگ اپنی بات منوانے کے لیے دلیل کا سہارا نہیں لیں گے بلکہ ہوائی فائر کرتے ہوئے بڑھکیں ماریں گے تاکہ سب ان کی مرضی کے سانچے میں ڈھل جائیں۔

ہمیں پیدل چلنے والے افراد کو قصوروار سمجھنے کی بھول نہیں کرنی چاہیے۔ ان کی یہ خطا تو ہو سکتی ہے کہ وہ سڑک پار کرتے ہوئے زیبرا کراسنگ کو استعمال میں نہیں لائے لیکن اگر زیبرا کراسنگ اس جگہ پر بنائی گی ہے جہاں پر سفر میں خوشحالی کا موڑ آنا تھا تو پھر پیادہ رو کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ٹریفک کے بہاؤ کی سمت متعین کرنے والوں سے کوئی خطا ہوئی ہے یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے ٹریفک کو اندھی کھائی کی جانب منتقل کیا گیا ہے۔ اب آگ لگانے والے آگ لگا کر عالم جذب ومستی میں اپنے ہاتھ سینکیتے رہیں گے۔

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کیونکہ وہ اپنے آپ کو میزبان نہیں مہمان سمجھتا تھا اور اپنے گھر کو گھر نہیں کرایہ کا مکان تصور کرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments