ماضی کی کچھ عالمگیر وبائیں


آج ہم اس تحریر میں کچھ ایسے وبائی امراض کا ذکر کریں گے جو تاریخ میں خوفناک اور خوف و ہراس کے علامت بن گئے۔ جن سے نہ صرف انسانی جانوں کا ضائع ہوا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ان وبائی امراض کی وجہ سے دنیا بھر میں زندگی کا پہیہ رک سا گیا اور ہر طرف ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور دنیا بھر میں افراتفری، تباہی اور خوف و ہراس پھیل گیا اور انسانی آبادی کا نقشہ ایک عجیب منظر پیش کرتا رہا۔ ان وبائی امراض میں سرفہرست ہیں سیاہ موت۔

سیاہ موت

سیاہ موت انسانی تاریخ کی خوفناک وباؤں میں سے ایک ہے اور اس وبا کو دنیا کی تین بدترین خطرناک وباؤں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ اور یہ ایک کثیر علاقائی وبائی مرض تھا۔ اس وبا کی وجہ سے دنیا کی آبادی اس حد تک کم ہو گئی تھی کہ دوبارہ آبادی کو اس سطح پر آنے میں دو سال لگے تھے ۔ اس وبا نے انسانی آبادی کو درہم برہم کر دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اگر یہ وبا نہ آتی تو آج دنیا کچھ اور رنگ پیش کر رہی ہوتی۔

یہ وبا یورپ میں اس حد تک پھیل گئی کہ مردوں کو دفنانے کے لیے جگہ نہیں بچی ، جس کی وجہ سے مردوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا جاتا تھا۔ یہ وبا اس حد تک خطرناک بن گئی کہ رات کو بیڈ پر تندرست لیٹنے والا شحص صبح گلٹیوں سے رستے خون اور پیپ میں لت پت ملتا۔ جب یہ وبائی مرض پھیلتا ہوا یورپ میں واقع غرناطہ کی مسلم ریاست میں پہنچا تو ریاست غرناطہ میں یہ اعلان کیا گیا کہ ”لوگو! اجتماع نہ کرو ، بھیڑ ختم کرو، سیاہ موت ایک شحص سے دوسرے شحص تک پھیل رہی ہیں، سیاہ موت سے خوفزدہ نہ ہو بلکہ سب اپنے اپنے گھروں میں رہو اور خوش رہو، دکانوں سے نکلو، بازاروں سے باہر آؤ“

یہ وہ ہدایات تھیں جو اس وقت کے وزیر سلطنت لسان الدین الخطیب کی طرف سے جاری کی گئی تھیں۔ شرح اموت کے حوالے سے اعداد شمار کچھ یوں ہیں کہ صرف مشرقی و وسطی ہندوستان اور چین میں تقریباً سات کروڑ پچاس لاکھ لوگ لقمۂ اجل بنے اور اس طرح مؤرخین کے مطابق یورپ کی بیس فیصد آبادی اس کی نذر ہو گئی تھی۔

طاعون

1665 سے لے کر 1666 تک برطانیہ میں ایک وبا پھیلنے لگی جس کو طاعون کہا جاتا ہے۔ جس دور میں یہ وبا لندن میں پھیل رہی تھی اس دور کو ہولناک وقت قرار دیا جاتا ہے۔ اس وبا کے علامتی آثار کچھ یوں تھے کہ جسم میں سوجن اور گردن، ران اور بغلوں میں سخت ابھار جو انتہائی تکلیف دہ اور بعد میں ان میں پیپ پیدا ہو جاتی تھی۔ 1665 میں جب یہ وبا لندن میں ظاہر ہوئی تو کچھ ہی عرصے میں یہ اتنی مہلک بن گئی کہ ایک ہفتے میں سات ہزار سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل بنے اور وبا اتنی تیزی سے پھیل رہی تھی کہ متاثرہ لوگوں کو گھروں میں بند کر کے تالے لگا لیے گئے۔

اس وبا سے تقریباً سینکڑوں سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ لندن شہر کی تقریباً پندرہ فیصد آبادی اس وبا کی نذر ہو گئی۔ اس وقت بھی لندن میں نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی اور لوگوں نے ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کر دیا تھا جیسے آج ہم کورونا کے باعث ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھتے ہیں۔

اس وبا کے دوران نظمیں بھی لکھی گئی تھی جو بہت مشہور ہوئیں تھی جن میں وبا کا ذکر کیے بغیر اس وبا کی نشانیاں، اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا گیا تھا جس کا مقصد بچوں کے دل سے وبا کا حوف نکالنا اور ان میں ہمت پیدا کرنا تھا تاکہ وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں لیکن آج اگر ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے متاثر ہونے کے ساتھ ان میں کورونا وائرس کا خوف و ہراس بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی نہیں اپنائی جا رہی جو بچوں کے دلوں سے اس موذی وائرس کا خوف و ہراس نکال سکے۔

کولیرا

کولیرا نامی وبا 1817 میں انڈیا میں ظاہر ہوئی اور کچھ ہی عرصہ میں جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی وسطی ایشیا، مشرقی افریقہ اور بحیرۂ روم کے ساحل تک پھیل گئی۔ اس وبائی مرض سے لاکھوں لوگ ہلاک ہو گئے جن میں برطانوی سپاہی بھی شامل تھے۔ آج تک اس وبا سے ہونے والی کل اموات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکی لیکن کچھ ماہرین کے مطابق بنکاک کو اس وبا سے تیس ہزار اموات کا سامنا کرنا پڑا، جاوا کے سیمرنگ میں گیارہ دنوں میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بنے اور مجموعی طور پر جاوا میں اس وبا سے ایک لاکھ لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اس طرح جیسے جیسے یہ وبا پھیلتی گئی ، مہلک بنتی گئی۔ بصرہ عراق میں ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اٹھارہ ہزار لوگ اس وبا سے زمین پوش ہو گئے۔ کوریا میں لاکھوں لوگ اس وبا کا شکار ہو گئے۔ اس طرح مجموعی طور پر اس وبا سے تقریباً بیس لاکھ سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل بنے تھے۔

تیسرا طاعون

1885 میں تیسرا طاعون کے نام سے وبا آئی جو چین کے صوبہ یونان میں ظاہر ہوئی ۔ یہ وبا تیزی کے ساتھ تمام براعظموں میں پھیلنے لگی جو تاریخ کی مہلک ترین وباؤں میں سے ایک تھی۔ وبا اتنی تباہ کن کہ پندرہ ملین لوگ زمین پوش ہوئے جن میں 10 ملین لوگ انڈیا میں لقمۂ اجل بنے۔

ہسپانوی فلو

ہسپانوی فلو جس کو 1918 میں عالمی وبا قرار دیا گیا جو کہ کئی ممالک میں لنگڑا بخار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ وبا 1918 میں ظاہر ہوئی اور 1920 میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس حوفناک وبا سے دو سال کے عرصے میں پانچ سو ملین لوگ متاثر ہوئے اور جن میں سترہ سے پچاس ملین لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ اس وبا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زیادہ مہلک بھی ثابت ہوئی تھی۔ اس وبا سے زیادہ تر نوجوان نشانہ بنے لیکن آج تک وائرلوجسٹ اور امیونولوجسٹ یہ معلوم نہیں کر سکے کہ اس وبائی مرض کی شرح اموات نوجوانوں میں کیوں زیادہ تھی؟

ایڈز

ایڈز کی ابتداء کونگو کے شہر کنشاسا میں 1920 میں ہوئی تھی لیکن یہ وبا 1980 میں منظر عام پر آئی،  تب تک ساٹھ ملین سے زیادہ لوگ اس وبائی مرض سے متاثر ہو چکے تھے۔ مختلف ذریعے سے یہ وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلتا گیا، برازیل اور کانٹاگا نامی ملک اس کا زیادہ شکار رہے ۔ لاکھوں لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ہر ماہ ایڈز کے مریضوں میں اضافہ دکھائی دیتا ہے جس کی مثال اس وقت کے دنیا بھر کے دو کروڑ مریض ہیں ، جو اس وبائی مرض میں مبتلا ہیں۔

اس وبائی مرض کے حوالے سے حال ہی میں ایک ناخوشگوار واقعہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی چھوٹی سی تحصیل کے ایک گاؤں میں پیش آیا جہاں زرینہ نامی لڑکی کو بے دردی کے ساتھ قتل کر کے اس کی لاش کو ایک درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا۔ صرف اس وجہ سے کہ اس خاتون کا قصور یہ تھا کہ اس میں ایچ آئی وی (ایڈز ) کی تصدیق ہوئی تھی۔

سوائن فلو

سوائن فلو 2009 میں سب سے پہلے شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو میں ظاہر ہوا۔ دنیا کے کئی ممالک میں سوائن فلو وائرس کو پگ وائرس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ تر متاثر ہونے والے لوگ وہ تھے جن کا براہ راست واسطہ خنزیروں سے تھا۔ 2009 میں علمی ادارۂ صحت نے اس کو وبائی مرض قرار دیا، اس وبائی مرض سے دو لاکھ سے زائد لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ حال ہی میں اس کے حوالے سے دوبارہ انکشاف ہوا کہ سوائن فلو کی ایک نئی قسم ملی ہیں جو کسی بھی ماحول میں پھیلنے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ بعض سائنس دانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ وائرس کورونا سے بھی بڑی وبا پھیلانے کا سبب بن سکتا ہیں۔

ایبولا

 2014 میں ایبولا نامی وبا افریقہ میں ظاہر ہوئی اور کم وبائی صلاحیت کی وجہ سے سات ہزار لوگ اس کے شکار بنے لیکن لندن کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ ایبولا وبا کا شمار ان وباؤں میں کیا جاتا جن کی شرح اموات سو فیصد تھی۔

موجودہ دور میں وبا جس کو کورونا کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ایک کہرام مچا ہوا ہے اور ہر طرف افراتفری اور خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ بازار، سکول، کھیل کود کے میدان، تفریحی مقامات الغرض ہر جگہ ایک عجیب سی کفییت طاری ہے اور جس نے دنیا کے بڑے نامور اور طاقتور ممالک کو بھی ہلا کر رکھا ہے ، میڈیکل کے میدان میں بلند مقام اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ممالک بھی اس وبا کے سامنے لاچار نظر آ رہے ہیں ۔ دراصل اس وبا کا ظہور چین سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وبائی مرض نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہت سے لوگ خاک پوش ہو گئے۔ عالمی صحت کے ادارے کے مطابق اب تک دو ملین سے زیادہ لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

وبائی امراض کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد جو قابل توجہ چیز سامنے آئی ، وہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ ماضی میں جتنی بھی وبائیں گزریں، اس وقت کی احتیاطی تدابیر اور آج کے کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ احتیاطی تدابیر وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اس وبائی مرض کے پھیلنے کو روک سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ وبا تباہی کا راستہ اپنائے ، ہمیں چاہیے کہ عالمی ادارۂ صحت کی جاری کردہ ہدایات پر عمل پیرا رہیں اور اس وبائی مرض کے روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments