مسموم ذہنوں کے ناخدا اور قلم سے بندھی امید


2000 میں جب میں پہلی بار اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر کی طرف عازم سفر ہوا تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ عید کے دنوں میں ریل گاڑی کی بکنگ مشکل ہے ، اس لئے بہتر ہو گا کہ تم بذریعہ بس روانہ ہو جاؤ۔ بذریعہ بس یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا جو قدرے طویل اور تنہا تھا۔ اس لئے میں ذرا سا گھبرایا ہوا تو تھا پر خاصا پرجوش بھی تھا۔

اس سے پہلے ایسا سفر میں نے فقط کراچی تک ہی کہ کیا ہوا تھا جو کہ قدرے قریب، مانوس اور روٹین میں سے تھا، اس لئے اس میں ایسا جوش و خروش کبھی محسوس نہیں ہوتا تھا، بجز بچپن کے کہ جب گرمیوں  یا سردیوں کی چھٹیوں میں اماں ہم کو کراچی سمندر کنارے اور کلفٹن کی سیر کروانے لے جایا کرتی تھیں۔

بس کی روانگی دن میں تھی اور میں نے 18 سے 20 گھنٹوں میں اپنے گھر پہنچنا تھا، اس لئے میں نے ٹھان لی کہ رات کے کھانے تک تو کم ازکم میں نے نہیں سونا اور راستے میں آنے والے شہروں اور قصبوں کا نظارہ کرنا ہے، کیونکہ میرا یہ ماننا تھا کہ راستے میں آنے والے در و دیوار پر درج نوشتوں سے شہر اور شہریوں کے مزاج کا کچھ اندازہ تو ہو ہی جائے گا۔

راستے میں یہ بات مشاہدے میں رہی کہ گھریلو مصنوعات، بنگالی عامل بابوں، منجن اور معجون کے علاوہ جن اشتہاروں سے دیواریں سب سے زیادہ بھری ہوئی تھیں ، وہ اس وقت کی مقبول جہادی تنظیموں اور اس کے ساتھ مذہبی شدت پسند تنظیموں (جو کہ بعد ازاں کاغذوں کی حد تک کالعدم قرار پائیں ) کے نعرے اور ان کی طرف سے چندے کی اپیلیں تھیں۔

یہ دیکھ کے مجھے زیادہ حیرت اس لئے بھی نہیں ہوئی کہ یہ تمام اشتہارات پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے در و دیوار پر موجود تھے جہاں ایک طویل عرصے سے مذہبی جنونیت، جہاد اور فرقہ واریت کے بیانیے پہ کئی ایک سیاسی اور مذہبی قوتوں کی طرف سے لوگوں کی تربیت ہو رہی تھی، جس کا باضابطہ آغاز غالباً 80 کی دہائی سے ہوا تھا۔

اگلی صبح جب ہماری بس سندھ پنجاب کی صوبائی سرحد پہ تھی تو میری آنکھ کھلی۔ پاس والے ہمسفر جو کہ ایک بزرگ تھے انہوں نے پوچھنے پہ بتایا کہ ابھی سندھ پنجاب کے مابین چیک پوسٹس آنے والی ہیں۔ گاڑی دونوں چیک پوسٹس سے گزر کے ہائی وے کے ایک ڈرائیور ہوٹل پر رکی جہاں سب نے تازہ دم ہو کر ناشتہ کیا اور پھر سے آگے کے سفر کا آغاز ہوا۔

اب جو گاڑی چلی تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی  جب میں نے سندھ کے چھوٹے بڑے قصبوں اور دیہاتوں تک کے در و دیوار بھی انہی جہادی تنظیموں اور مذہبی شدت پسند تنظیموں کے نعروں اور چندے کی اپیلوں سے بھرے ہوئے دیکھے۔ میری حیرت اس لئے بھی فطری تھی کیونکہ میرے ہوش سنبھالنے تک سندھ میں جہادی تنظیموں اور مذہبی شدت پسند تنظیموں کی اتنی کھلی تشہیر پہلے نہیں دیکھی گئی تھی۔ اگر ایسے طبقات کا کوئی وجود تھا بھی تو وہ بٹا ہوا اور چھوٹے قصبوں تک محدود تھا۔

سندھ میں شروع سے ہی یہ عام خیال کیا جاتا رہا ہے کے اپر سندھ کا علاقہ مزاج میں جنوبی پنجاب سے مماثلت رکھتا ہے۔ اگرچہ میں اس بات سے متفق نہیں کیونکہ اپر سندھ نے بہت سارے روشن خیال اور ترقی پسندوں کو جنما ہے جنہوں نے کئی ایک تحریکوں میں اپنا آپ منوایا ہے، تاہم جمہور کی رائے کا احترام کرتے ہوئے میں نے یہ گمان کیا کہ شاید یہی وجہ ٹھہری ہو کہ اپر سندھ میں نظر آنے والی نوشتے بھی جنوبی پنجاب سے مماثلت رکھتے ہیں۔ باوجود اس کے میں نے حیدر آباد، میرپورخاص اور جنوبی سندھ کے سیاسی طور پہ متحرک، روشن خیال، صوفی اور ترقی پسند دوستوں کو اپنے مشاہدے سے  آگاہ کیا جس کو انہوں نے یہ کہہ کر مذاق میں اڑا دیا کہ سندھ کے مزاج میں ایسی قوتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

کچھ برسوں بعد جب ملازمت کے سلسلے میں ایک آدھ سال کے لئے مجھے حیدرآباد اور جامشورو میں رہنے کا اتفاق ہوا اور سندھ، مہران اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے کچھ گریجویٹس سے باقاعدہ بات چیت کا موقعہ ملتا رہا تو بخوبی یہ اندازہ ہوا کہ اب مزاج کے معاملے میں ہر دو جانب میں ایک ہی سطح کا معیار پایا جاتا ہے۔ مطلب کل تک جو درس گاہیں سندھ میں فکری تحریکوں کا مرکز رہ چکی تھیں ، وہاں اب مکالمے اور استدلال کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی تھی اور نوجوانوں کے ذہن تفکر سے زیادہ فتوؤں کے زیر اثر نظر آئے۔ اور ایسے چند اساتذہ جو اب بھی شعوری تحرک کی علامت تھے، ان سے وہ قطعی متاثر نہیں تھے بلکہ ان کو بہکے ہوئے افراد میں شمار کرتے تھے۔

اس ساری صورتحال میں پورا نہ سہی پر زیادہ تر کمال اسی بیانیے کا تھا جس کی ترویج و تشہیر کے ثمرات اب سندھ تک آ پہنچے تھے، اور اس کی اہم وجہ یہاں ماضی میں اٹھنے والی تحریکوں سے منسلک متحرک صاحب دانش افراد کی ضعیف العمری اور نئے آنے والوں کی کسی بھی قسم کی شعوری تحریک میں ان کی عدم دلچسپی تھی۔ اس کے ساتھ بڑی درسگاہوں میں ایسے اساتذہ کی فوج ظفر موج کا سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پہ چنا جانا تھا جو تدریس کی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے قطعی عاری تھے۔

نتیجتاً جدید سائنسی تدریس کے باوجود ہماری درس گاہوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹر، انجینئرز الغرض پڑھے لکھے گریجویٹ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے شدت پسندی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث پائے جانے لگے۔

وہ تمام عوامل جو شدت پسندی و مذہبی جنونیت کے اس بیانیے کی تشہیر و ترویج میں کارفرما رہے بہرصورت ایک ”تحریک“ کی مثل آگے بڑھتے رہے جبکہ اس کے مقابل ہمارے دانش کدوں سے کچھ نفوس تو محض ”تحریر“ کے دم پر اس کی پسپائی کی کوشش کرتے رہے جبکہ باقیوں کی توجہ ادبی سنگتوں کے عہدوں اور سرکاری وظیفوں پہ جمی رہی۔ نتیجتاً وہ دانشور جو مکالمے اور استدلال کی بناء پر شعور کی آبیاری کرتے رہے، وہ ایسے نامساعد حالات سے گزرے کہ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم میں بہت طاقت ہوتی ہے، پر کیا کسی ”تحریک“ کو کہ جس کے ناخداؤں نے منافرت کے زہر سے ذہنوں کو مسموم کر رکھا ہو، اس کا مقابلہ محض ”تحریر“ سے کیا جا سکتا ہے؟ وہ بھی اس معاشرے میں جہاں مطالعہ ناپید ہو چلا ہو جبکہ مکالمے اور استدلال کی جگہ فتوے نے لے لی ہو۔

آج ہمارا اجتماعی شعور جس سطح پہ آ پہنچا ہے ، وہاں سیدھی سمجھائی جانے والی بات تک کا غلط مطلب لیا جاتا ہے چہ جائے کہ کسی تمثیل کے جذب کی قوت ہم میں رہ گئی ہو۔ سچ تو یہ ہے کی اگر آج کی تاریخ میں سچل سرمست یا بابا بلھے شاہ بھی ہوتے تو وہ پہلے کی طرح محض کفر کے فتوؤں کی زد میں نہ آتے بلکہ ان کے سر کی قیمت بھی کوئی مفتی لگا چکا ہوتا یا کم از کم سپاری تو دے ہی دی ہوتی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان بگڑے ہوئے حالات اور معاشرے میں پھیلی کج فہمی اور منافرت کا تعفن ہمارے روشن خیال، اور ترقی پسند حلقوں کی طرف سے لکھی ہوئی تحاریر یا سوشل میڈیا پہ چھڑی لفظوں کی جنگ سے ختم ہو جائے گا؟ اور کیا اس سے ہم خطرے میں پڑی قیمتی جانیں بچا پائیں گے؟ یا پھر ہمیں کسی دیرپا شعوری سماجی تحریک اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے جہاں آنے والی نسلوں کی تربیت اعتدال، رواداری، باہمی احترام، مکالمے اور استدلال کے بیانیے پہ ممکن ہو سکے۔ اور ہماری نسلیں حقیقت اور تمثیل کا فرق جاننے اور اس کے جذب کے متحمل ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments