اسلام ہی میری نظریاتی اساس ہے


عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ اس کے برعکس مذہب جزء ہے جو شرعی عبادات احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں دین سے مراد ہے نظام اور مذہب سے مراد ہے عقائد۔

اللہ چاہتا ہے زمین پر اسلام کا نظام ہو اور مخالفین و منکر اور کفار چاہتے ہیں زمین پر اللہ کا نظام نہ ہو عقائد بھلے اسلامی ہوں مگر نظام غیر اسلامی ہو۔

دین کی لازم شرط یہ ہے کہ دین کا غلبہ ہو، آپ غور کریں جتنے غیر اسلامی ممالک ہیں وہ مسلمانوں کو ان کے عقائد کی حد تک عبادت کی اجازت دیتے ہیں، مثلاً نماز ادا کرنا، زکوٰۃ دینا، روزہ رکھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، عیدیں منانا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر اسلامی قوانین کے پھیلاؤ کی اجازت نہیں دیتے۔ حتٰی کہ مسلمانوں کے اپنے ممالک میں بھی وہ اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں ہونے دیتے، جیسا کہ شرعی قوانین اور شرعی سزائیں، چور کا ہاتھ کاٹنا، کفار کو مسلمان ممالک میں سربراہی دینا، وغیرہ وغیرہ، جبکہ دین اسلام کی پہلی شرط ہے زمین پر ہر طرف اسلام کا غلبہ ہو اور اگر یہ غلبہ نہیں ہو سکتا تو پھر اسلام محض ایک مذہب ہے ، صرف عقائد کی پیروی ہے، اس کے آگے کچھ نہیں۔

پاکستان جیسے ممالک میں دین اور اسلام کے رائج نہ ہو پانے کی وجہ شاید یہی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہب اور دین کے بارے میں بنیادی معلومات کے حصول کی طلب ہونی چاہیے، بے شک اللہ پاک آپ تک ہدایت پہنچاتے ہیں اگر آپ ہدایت چاہتے ہوں۔

ہمارے ہاں مذہب ٹچ می ناٹ کے پودے جیسا کیوں ہے؟

ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں، سوشل میڈیا اور سوشل اجتماعات میں مذہب پر تبصرے سے یا تو گریز نظر آتا ہے کہ کوئی تنازعہ نہ ہو جائے۔ حالانکہ اس کی بنیادی تعلیمات تو بطور مسلمان مجھے معلوم ہونی چاہئیں اور اگر نہیں تو اس پر مجھے شرمندہ ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کو شرمندہ کرنا چاہیے جبکہ آپ دیکھ بھی رہے ہوں کہ پوچھنے والے کا مقصد آپ کو زچ کرنا ہرگز نہیں۔

فیس بک پر شیئر کرنے کے لیے کتنا کچھ ہے مگر پھر بھی لوگ مذہب کے بارے میں متنازع چیزیں لگانا اپنا مشغلہ سمجھتے ہیں اور اگر کوئی وضاحت کر دے تو اسے شدت پسند کا لقب فوراً دے دیتے ہیں۔

یہ میڈیم ایک دوسرے سے خیالات شیئر کرنے ہی کے لیے ہے تو پھر حوصلے سے ایک دوسرے کی بات سن لینے میں کیا حرج ہے، آخر یقین تو ہم اپنی ہی مرضی سے کرتے ہیں۔

مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگوں میں قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے، نہ جانے اس کی کیا وجہ ہے اور اچھے خاصے لوگ مذہب کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کر کے نہ جانے خود کو کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب تو خالصتاً ذاتی مسئلہ ہے، اسے ہماری ذات کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے، پھر اس پر علمی بحث کو بھی طبل جنگ کیوں سمجھ لیا جاتا ہے۔

فیس بک کا معاملہ بھی عملی زندگی جیسا لگتا ہے، جس کسی کو اس کی علمیت اور بڑے پن کی وجہ سے ہم سوچ کی اونچی مسند پر بٹھا دیں، خدا اس کا ایک نرالا ہی روپ ہمارے سامنے لے آتا ہے۔

مذہب کو چھوئی موئی ان لوگوں نے بنایا ہے جنہوں نے اسلام کا ٹھیکہ لے کر اپنا کاروبار چمکا رکھا ہے۔

عام مسلمان تو اپنے دین کو سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر یہ لوگ اپنے کاروباری فائدے کو مدنظر رکھتے ہیں اور اصل معلومات عوام تک نہیں پہنچنے دیتے۔

اگر یورپ کے تاریک زمانے (Dark ages of Europe) اور آج کے دور کا تقابل کریں تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے پادری اور آج کے ملا اللہ کی آیات کو سستے داموں بیچنے میں ایک جیسی مارکیٹنگ سکلز اور سٹریٹیجیز اختیار کیے ہوئے ہیں۔

یہاں اسلام کے ٹھیکے دار جگہ جگہ مل جائیں گے جبکہ مسلمانوں کے ٹھیکے دار خال خال ہی ملیں گے۔ ٹھیکیدار ہماری اپنی ہی کمزوری کی وجہ سے زورآور ہیں۔ قرآن جب خود کہتا ہے کہ مجھے سمجھنا ہے تو میری زبان کو پہلے سمجھو، تو عربی کو ہم عوام الناس نے خود دیس نکالا دیا ہوا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے کوئی قرآنی بات پوچھنا ہو تو ٹھیکیدار کے پاس ہی جاتے ہیں، پھر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہر ٹھیکیدار کا تخمینہ الگ الگ ہوتا ہے، جبکہ اگر ہم خود مذہب سے آشنا رہنے کی روایت قائم رکھتے تو اپنے بچے کی پیدائش پر اذان، نکاح خوانی، تجہیز و تکفین کنٹریکٹ پر نہ دیتے۔ مسلم ہونے کے دعویدار ہوتے ہوئے اس کے ضابطۂ حیات کو نظرانداز کرنے کے رویے نے ہی ہمیں ٹھیکیدار کا محتاج بنایا ہے۔

میرے خیال میں تفسیر کی چھ جلدیں (تفہیم القرآن) اور معارف القرآن، فی ظل القرآن، اور ابن کثیر کی پہلی جلدیں پڑھ لینے سے آپ کو قرآن پاک کی بنیادی سمجھ آ جاتی ہے، بہت سے عربی زبان بولنے والوں کا بھی دین کا علم بہت محدود ہے حالانکہ ان کی مادری زبان عربی ہے۔ آج کل تو آپ کو بہت اچھے ترجمے اور قرآن پاک کی تفسیر کی کتابیں مل جائیں گی۔ صرف اگر قرآن پاک کی ابتدائی بیس آیات پڑھ اور سمجھ لیں تو آپ کو اس کتاب سے رہنمائی مل سکتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے روایت یے کہ انھوں نے فرمایا ”میں نے سورہ بقرۃ پانچ (چھ) سال میں یاد کی“ وہ اپنے وقت کے چند اچھے علماء دین صحابہ رسول ﷺ میں سے تھے۔ مفسرین کہتے ہیں یہاں پر ان کی مراد یاد کرنے سے یہ ہے کہ انہوں نے اس سورۃ میں جو احکامات ہیں ان پر پانچ یا چھ سال میں عمل کیا۔ ویسے ایسے بھی واقعات ہیں جو رسول پاک ﷺ کے دور میں پیش آئے کہ صحابہ کرامؓ نے آپ کے پاس آ کر قرآن پاک کی آیات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کی۔ جیسے سحری کے وقت ختم ہونے کے بارے میں ”کالا دھاگہ سفید دھاگے میں تبدیل ہو جائے“ اور ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے تکیہ کے نیچے دھاگہ رکھنا شروع کر لیا تھا، اگر آپ کے پاس مواقعے اور وقت ہو تو عربی زبان بھی سیکھ لینا چاہیے، کم از کم نماز پڑھتے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔

ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماری قوم کی پراگندہ سوچ ہے جو بے حد خطرناک ہے۔ پاکستان کی سیاسی و نظریاتی تفریق خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو فوری توجہ اور حل طلب ایشو ہے۔ ہماری نظریاتی تفریق اور نظریات سے عاری موجودہ سیاسی نظام ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو کہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں نظام حکومت منتخب کرنے کا اختیار دیا ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصول ہیں۔ یہی ہمارا نظریۂ حیات ہے جس کی تشریخ 1973ء کے آئین میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:

”پاکستان کا نظام حکومت جمہوری ہوگا جس کی بنیاد قرآن و سنت کے اصولوں پر قائم ہو گی۔“

لیکن بدقسمتی سے ہم نے قرآن و سنت کے اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف جمہوریت کو ہی ترجیح دی ہے۔ اب تک کی کسی حکومت کو (نہ موجودہ اور نہ گزشتہ )اور نہ ہی متعدد مذہبی جماعتوں میں سے کسی کو یہ توفیق ہوئی ہے کہ وہ قوم کی نظریاتی شناخت کو محفوظ بنانے کی طرف توجہ دیتے۔ ہم اپنی قوم کو مسلم شناخت دینے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا نظام تعلیم قرآن و سنت کے اصولوں سے یکسر عاری ہے اور اس جرم میں ہماری عدلیہ، انتظامیہ ، کچھ سیاسی و دینی جماعتیں اور اشرافیہ برابر کے شریک رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments