الف اور دال


وہ بھی ایک بھرپور مکمل جامع سلطنت کا مالک تھا۔ گویا سلطنت کچھ وسیع و عریض تو نہ تھی کہیں اس کی طوالت اور درازیٔ قامت فقط پانچ سے چھ فٹ کے قریب ہوتی ، کہیں ایک دو فٹ تک اور بڑھ جاتی۔ اس کی ذاتی سلطنت پانچ فٹ پانچ انچ تھی۔

وہ برق رفتار سفید تخیل کے گھوڑے پہ اڑتا ہوا کوہ قاف کی وادیوں کی کھوج میں فضائے بسیط میں سفید بادلوں کی رتھ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اسے غیب سے صدا آئی؛

”اب اس گھوڑے سے اترو اور پاپیادہ سفر کرو“
” آتشی نارنجی لباس تن پہ پہنو اور کھوج جاری رکھو۔“
کبھی کبھار وادی تخیل میں جب وہ محو ہوتا اسے آوازیں آیا کرتی تھیں۔

فرمان جاری ہو چکا تھا۔ اس کے کندھوں پر بیضوی شکل کا مرکزی دفتر تھا۔ جہاں سے دائیں طرف سے بائیں طرف مراسلے بھیجے جاتے اور کبھی کبھار ضروری فرمان بالواسطہ ہی جاری ہو جاتا۔

وہ حکم بجا لانے کا پابند تھا۔ جیسے کسی فوجی کو حکم کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔

حکم کی تعمیل کرنی پڑی ، اب یہ سفر ایڑیوں کے بل تھا ، ایڑیاں پھٹ جاتیں تو پنجوں کے بل اسے چلنا تھا ، وہ چلتا رہا اندھیری سرنگوں سے ریتلے میدانوں گھاٹیوں سے گزرتا ہوا چلتا چلا جا رہا تھا، گردش لیل و نہار کی جادونگری میں اسے سنہری منتر کی تلاش تھی، سدھارتھ کی طرح بدھ کی طرح۔

لامتناہی سفر کے سلسلوں میں باب حرف ہی اس کی اگلی منزل تھی۔ اسے محسوس ہوا وہ باب حرف کے قریب ہے۔ تیسری آنکھ اس کے ماتھے کی ابروؤں کے عین وسط میں کھلی اور اس نے چاندی کے اوراق کو دیکھا۔ اس نے دیکھا جیسے حروف کے ظروف شکلیں اور روپ بدلتے تھے کبھی، اندھیروں میں تشفی کے جگنوؤں کی مانند اڑتے، کبھی رنگین پھولوں کا پیرہن اوڑھتے، کبھی تتلیوں کی صورت ڈال ڈال گھومتے، رنگ گھولتے، بھاگتے دوڑتے، بولتے۔

ایک منظر نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ تمام نیلگوں آسماں کے نیچے قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ جیسے مجمع ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیشانی کے بل اوندھے ہوئے پلک جھپکتے اس کی نگاہ ایک جندرے پہ پڑی ۔ ایک قفل کھلا ، ان میں ایک حرف بادشاہ تھا
” ذو الجلال والاکرام،“
اللہ
سنہرے تاروں سے روشنی کی لہروں سے پھیلا ہوا ہر طرف
جیسے ہر شے پہ محیط ہو
لمحوں میں جوگی نے دال کی صورت اختیار
کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں قید ہو گیا۔
حاصل اور تلاش کے سفر میں تسکین دال کی صورت تھی۔ عاجزی کی صورت وہ حالت رکوع میں پیوست ہو گیا۔
دونوں آنکھوں میں نور منتر بن کے دوڑ رہا تھا۔
الف کی بادشاہی زمان و مکان کی وسعتوں سے زیادہ تھی۔

کنجیاں ہلنے لگیں ، باب حرف کھلنے لگا ۔ فیصلے کا اختیار اسے تھا۔ وہ ہر روپ دھارنے پہ قادر تھا۔ حروف تہجی میں د کا مقام نرالا تھا یا عبد جانے یا معبود ۔ درد، دل ، دعا ، دلیل اور دانش میں دال مشترک تھا۔

وہ سوچ رہا تھا کیا وہ حالت رکوع میں رکا رہے یا الف کی شکل اختیار کر کے حالت قیام میں ساکن کھڑا ہو جائے۔

اسے پھر آواز آئی

تم ایک حالت میں مسلسل نہیں رہ سکتے ، تغیر کے خمیر سے بنے ہو، ہر آن تگ و دو ہی تمہاری منزل ہے۔ ہر حرف تمہارا مسکن ہے اٹھو اور سفر کرو سفر زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments