کیا فرانس اور ترکی کے کشیدہ تعلقات میں مسجد ‘ایوب سلطان’ کا بھی کردار ہے؟


فرانس کے مشرقی شہر اسٹراسبرگ کی زیرِ تعمیر مسجد ایوب سلطان کئی تنازعات اور شکایات کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اس مسجد کو جہاں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کہا جا رہا ہے وہیں اس کی تعمیر پر فرانس کے سیکولر حلقے تشویش میں مبتلا ہیں جب کہ مقامی سطح پر مسجد کی تعمیر کے معاملے پر بہت سے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔

‘مسجد ایوب سلطان’ کو ایک ترک نژاد تنظیم کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس مسجد کی تعمیر کے معاملے پر شکایات کا ان خدشات کی شکل میں اظہار ہو رہا ہے جو یورپی یونین میں ترکی کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔

حال ہی میں فرانس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسٹراسبرگ شہر کی بائیں بازو کی حکومت کی طرف سے اس مسجد کی تعمیر میں سبسڈی یعنی مالی رعایت کے اعلان کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر پر تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی لاگت آئے گی جب کہ مسجد کی فنڈنگ میں ترکی کی ایک تنظیم ‘ملی گورس’ پیش پیش ہے۔

فرانس میں مسجدوں کی تعمیر کے لیے فنڈنگ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور 1905 میں چرج اور ریاست کے علیحدہ کرنے کے قانون کے بعد عبادگاہوں پر حکومتی فنڈز خرچ کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن مسجد ایوب سلطان پر اس قانون کا اطلاق اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ جس خطے میں یہ واقع ہے اس کے الگ سے قانون و قوائد ہیں۔

فرانس کے نمائندے انتہا پسندی کے خلاف قانون سازی کرنے پر بحث کر رہے ہیں اور مجوزہ قانون کے تحت فرانس میں مذہبی گروہوں کی مالی اعانت پر پابندی عائد کرنا بھی شامل ہے۔

فرانس کے سخت نظریات کے حامل وزیرِ داخلہ جیرالڈ دارمینن نے دھمکی دی کہ ‘ملی گورس’ جیسی تنظیموں کو تحلیل کر دیا جائے گا کیوں کہ ان کے بقول ترک تنظیم نے انتہا پسندی کے خلاف حکومتی منشور کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ اس تنظیم کو ملک دشمن سمجھتے ہیں۔

فرانسیسی وزیرِ داخلہ نے اسٹراسبرگ شہر کی میئر جین بار سیغیاں پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے 30 لاکھ ڈالرز فراہم کیے ہیں۔ تاہم میئر نے وزیرِ داخلہ دارمینن کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اسٹراسبرگ کی کونسل کی طرف سے مسجد کے لیے فنڈز کی منظوری دینے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ تاہم مسجد کی تعمیر کے لیے فنڈز کی دستیابی کے خلاف دائر مقدمہ اس منظوری کے عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

دائیں بازو کے ایک جریدے نے اسٹراسبرگ کی میئر کی طرف سے مسجد کی مبینہ فنڈنگ پر سرخی لگائی کہ ‘کیا یہ شہر سیاسی اسلام کو رعایت دے رہا ہے۔ تعاون یا سرتسلیم خم؟’

بیلجئم کی نامور ‘کے یو لیوون یونیورسٹی’ سے وابستہ لیکچرار ارکاں توگوسلو کا کہنا ہے کہ ترک حکومت مسجد ایوب سلطان اور ‘ملی گورس’ گروپ کو نرم طاقت کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے اور اس بات کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ترک قوم پرستی سے ہے۔

ان کے بقول ترک حکومت مساجد اور تارکینِ وطن کو مسلمانوں کے مفاد کے بجائے یورپ میں اپنی پالیسی کے لیے استعمال کرتی ہے۔

یاد رہے کہ فرانس میں ‘مسجد ایوب سلطان’ کے معاملے پر جہاں تنازع موجود ہے وہیں اس مسجد کو ترکی سے جوڑا جا رہا ہے۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ دارمینین
فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ دارمینین

ترکی کے باشندے فرانس میں مساجد میں امامت کرتے ہیں جس سے مقامی سطح پر اماموں کی کمی پوری ہوتی ہے۔

ماضی میں فرانس میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے خدشات کا تعلق شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی طرف رہا ہے لیکن اب ترکی کی جانب اشارے کیے جا رہے ہیں۔

فرانس میں اس وقت سات لاکھ ترکی نژاد لوگ بستے ہیں جو کہ کل 60 لاکھ مسلم آبادی کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ گزشتہ برس فرانس کی 2003 میں قائم ہونے والی مسلم کونسل کے انتخابات میں ترکی نمائندوں نے اکثریت حاصل کی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ فرانس میں ترک برادری بڑا اثر و رسوخ رکھتی ہے اور اس کے ارادے بھی بڑے ہیں جب کہ ترکی ‘ترکش اسلامی قوم پرستی’ کی صورت میں خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔

مسجد ‘ایوب سلطان’ کی حامی تنظیم ‘ملی گورس’ کے اہل کاروں نے وزیرِ داخلہ کے بیان پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔ لیکن ایک حالیہ بیان میں مذکورہ تنظیم نے اس تاثر کو غلط قرار دیا تھا کہ وہ ایک بنیاد پرست گروہ ہے۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ ایک فرانسیسی تنظیم ہے جس نے ہمیشہ فرانس کی جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے شفافیت سے اپنے معاملات چلائے ہیں۔

کچھ مبصرین کی نظر میں مسجد کی فنڈنگ پر یہ تنازع اور صدر ایمانوئیل میخواں کی طرف سے آئندہ برس انتخابات میں بیرونی مداخلت کے متعلق خبردار کرنے کو فرانسیسی ووٹرز کے لیے ایک بیان سمجھا جارہا ہے۔ کیوں کہ صدر میخواں کو الیکشن سے پہلے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ پر تنقید کا بھی سامنا ہے

لیکچرار توگوسلو کا کہنا ہے کہ ترکی مذہب کی بنیاد پر اپنا اثر پھیلا رہا ہے لیکن اس وقت یورپ کو اس کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول اس بات کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر یورپ کی طرف رخ کرنے والے مہاجرین کو روکنے کی بجائے اگر ترکی اپنی سرحدیں کھول دے تو کیا ہوگا؟ جب کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میخواں بھی اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں۔

توگولسو کے مطابق فرانسیسی صدر کے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں جس کی وجہ لیبیا، شام اور مشرقی بحیرۂ روم میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔

حال ہی میں صدر میخواں نے ترک حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ فرانس کے اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں دخل اندازی سے باز رہے اور ان کی حکومت نے ترکی کی تنظیموں پر تنقید بھی کی تھی۔

یورپی یونین کے ایک وفد نے حال ہی میں انقرہ کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ ترکی کے ساتھ اختلافات کا کوئی حل نکالا جاسکے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments