گوگل کے ڈیٹا سینٹر میں پانی کی بوتل نہ ملنے پر مقدمہ کرنے والی شینن ویٹ کی فتح
جمیز کلیٹن - ٹیکنالوجی رپورٹر، شمالی امریکہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ بس بہت ہو گیا اب مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کا لمحہ کسی انتہائی غیر اہم واقعے پر بھی آ سکتا ہے۔
ایسا ہی کچھ شینن ویٹ سے ساتھ بھی ہوا جو نارتھ کیرولینا میں گوگل کے ایک ڈیٹا سنٹر میں پیش آیا جب کام کے دوران ان کی پانی کی بوتل کا ڈھکن ٹوٹ گیا۔
شینن جس ڈیٹا سینٹر میں کام کرتی تھیں اس کا درجہ حرارت کافی زیادہ تھا۔ جب ان کی پانی کی بوتل کا ڈھکن ٹوٹ گیا تو انھوں نے نئی بوتل کا مطالبہ گیا تو ان کے آجر نے انھیں نئی بوتل دینےسے انکار کر دیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب شینن کے صبر انتہا ہو گئی اور پھر چھڑنے والی جنگ کا نتیجہ پچھلے ہفتے گوگل کے بیان کی صورت میں سامنے آیا۔
گوگل نے اپنے بیان میں کہا کہ کمپنی ملازمین کو اپنی تنخواہ اور کام کے حالات کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کرنے کا حق حاصل ہے۔
یہ بڑی عجبب سی بات ہے کہ کمپنی کو ایسی بات کہنی پڑی۔
شینن کی کہانی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ملازمین کے حالات کار اور افسران کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کہانی بیان کرتی ہے۔
شنین نے 2018 میں تاریخ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ساؤتھ کیرولینا میں گوگل کے ڈیٹا سینٹر میں پندرہ ڈالر فی گھنٹہ اجرت پر کام شروع کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے کاموں میں سرورز کو ٹھیک کرنا، ہارڈ ڈرائیو اور مدربوٹ کو ٹھیک کرنا اور بھاری بھر کم بیٹریوں کو اٹھا کر ادھر ادھر رکھنا شامل تھا۔ ’یہ بہت ہی محنت طلب کام تھا۔‘
عام تاثر یہ ہے کہ گوگل کے دفتروں میں بہت تخلیقی ماحول پایا جاتا ہے جہاں ملازمین مزے کرتے ہیں، جہاں انھیں مفت خوراک ملتی ہے اور ٹیبل ٹینس کے میز دفتر میں لگے ہوتے ہیں جہاں وہ کھیل سکتے ہیں۔ لیکن جو کچھ شینن بیان کرتی ہیں وہ اس سے بہت مختلف ہے۔
شینن گوگل میں ایک ’ کنٹریکٹر‘ تھیں جس کا مطلب ہے کہ وہ کام تو گوگل کے لیے کرتی ہیں لیکن وہ ملازم ایک اور کمپنی، میڈیس کی تھیں اور وہ کمپنی ایک اور کمپنی ایڈیکو کا حصہ ہے۔
ملازمت کا یہ پیچدہ نظام گوگل میں بہت عام ہے اور اس کے لیے کام کرنے والے افراد میں سے نصف گوگل کے ملازم نہیں بلکہ وہ ’کنٹریکٹر‘ ہیں۔
شینن کہتی ہیں جب کووڈ کی وبا پھیلی تو اس سے بہت سارے لوگ متاثر ہوئے۔ جو شخص بھی شفٹ پر ہوتا تھا اس کے لیے کام بڑھ گیا لیکن ایک خوشی کی خبر بھی تھی۔
گوگل نے مئی 2020 میں اعلان کیا کہ وہ وبا کے دور کو ’پروقار انداز‘ میں گذاریں گے۔ کمپنی نے کہا کہ گوگل کے لیے کام کرنے والے سارے لوگ، اس کے اپنے ملازم اور ایسے کنٹریکٹر جو اصالتاً کام کرتے ہیں، ان سب کو بونس ملے گا۔
شینن بتاتی ہیں کہ جب بونس کا وقت آیا، تو ان کے بینک اکاؤنٹ میں کچھ بھی ظاہر نہ ہوا۔ ’ہمیں تشویش لاحق ہوئی، ہم تو اس بونس کو خرچ کرنے کے پروگرام بنا رہے تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ملازمین نے ایک دوسرے سے بونس کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ کس کو کتنا ملے گا۔‘
’اسی دوران ملازمین نے ایک دوسرے کی تنخواہ کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ جب اس کا انتظامیہ کو پتہ چلا تو ملازمین کو یادہانی کرائی گئی کہ ایسی باتوں سے گریز کیا جائے۔‘
شینن نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ایک مینجر نے تحریری پیغام بھیجا کہ معاوضے کے بارے میں دفتری ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کی اجازت نہیں۔ شینن نے اپنے مینجر کا وہ پیغام بی بی سی کو دکھایا۔
شینن کو بالآخر بونس ملا لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ گوگل کی ملازم بنیں لیکن ان پر یہ آشکار ہوا کہ گوگل میں عارضی سٹاف کا ایک کلچر ہے اور عارضی سٹاف میں کوئی کتنی بھی کوشش کر لے وہ گوگل کا مستقل ملازم نہیں بن سکتا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب شینن گوگل کی انتظامیہ کے رویے سے نالاں ہو کر اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ ’بس بہت ہو گیا۔‘
کہانی کچھ یوں ہے۔ شینن ویٹ نارتھ کیرولینا میں گوگل کے جس ڈیٹا سنٹر میں کام کرتی تھیں وہاں درجہ حرات 29 اعشاریہ پانچ سنٹی گریڈ ہوتا تھا۔ گوگل نے انھیں پانی کی ایک بوتل دی۔ لیکن اس بوتل کا ڈھکن ٹوٹ گیا۔ یہ ہی کچھ ان کے ایک ساتھی کے ساتھ بھی ہوا۔ ان کے ساتھی کو تو نئی بوتل جاری کر دی گئی لیکن شینن کو بوتل نہیں دی گئی۔
وہ گھر گئیں اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو فیس بک پر شیئر کیا۔ انھوں نے لکھا ’میرے آجر نے مجھے بتایا کہ جو ملازمین بھاری وزن اٹھاتے ہیں اگر ان کی پانی کی بوتل یا اس کا ڈھکن ٹوٹ جائے تو وہ نئی بوتل نہیں دیں گے۔ وبا کے دوران نہ تو وہ بریک لے کر پانی پی سکتے ہیں، بس پیاسے رہیں اور کام کرتے جائیں اور شکر ادا کریں کہ ان کے پاس جاب ہے۔ خطرناک کام کی ادئیگی کا ذکر بھی نہ کریں۔ میں نے اسی لیے ایلفابیٹ ورکر یونین جوائن کر لی ہے۔‘
دوسرے دن جب وہ کام پر گئیں تو انھیں ایک کانفرنس روم میں بلایا گیا جہاں تمام مینیجرز بھی موجود تھے۔ انھوں نے شینن کو بتایا کہ انھوں نے فیس بک پر جو پوسٹ شیئر کی ہے وہ کمپنی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور وہ ادارے کے لیے سکیورٹی رسک بن چکی ہیں۔’مجھے کہا گیا کہ میں اپنا بیج اور اپنا لیپ ٹاپ کمپنی کے حوالے کر کے فوراً دفتر سے نکل جاؤں۔‘
2021 میں گوگل ورکرز کے لیے ایلفابیٹ ورکر یونین قائم کی گئی۔ اسے ابھی نیشنل لیبر ریگولیشن بورڈ نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اسے ’’اقلیتی یونین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
گوگل کے ملازمین کی اکثریت اس یونین کی ممبر نہیں ہے لیکن شینن یونین اس کی ممبر تھیں اور یونین نے ان کا کیس لیا۔
یونین نے فروری میں شینن کی ایما پر دو کیس دائر کیے۔ ایک کیس یونین سے بات کرنے پر معطلی کا تھا جبکہ دوسرا مینجر کی جانب سے اپنی تنخواہ کے بارے میں بات کرنے سے روکے جانے کے خلاف تھا۔
پچھلے مہینے گوگل اور اس کی کنٹریکٹ کمپنی موڈیس اور ایلفابیٹ ورکر کے مابین سمجھوتہ ہو گیا جس کے تحت شینن کی معطلی ختم ہو گئی۔
اس معاہدے کی رو سے گوگل نے ایک ایسی دستاویز پر دستخط کیے جس میں کہا گیا کہ ملازمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تنخواہوں اور اپنے حالات کار کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
یہ شینن ویٹ اور نئی قائم ہونی والی ایلفابیٹ ورکر یونین کی فتح ہے۔
کھرب پتی کمپنیوں کے گوداموں اور ڈیٹا سینٹروں میں کام کرنے والے مزدور اپنے حقوق کی پامالی سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب انھیں سمجھ آ رہی ہے کہ یہ کمپنیاں ملازمین کی بات سننے کے لیے تیار نہیں لہذا اب وہ انھیں اپنی سنانے لگے ہیں۔
گذشتہ ہفتے الباما میں امیزون ورکروں نے اس نکتے پر بیلٹ کیا ہے کہ کیا امیزون ورکروں کو یونین بنانی چاہیے۔ ایمازون کی پوری کوشش ہے کہ ورکرز یونین نہ بن پائے۔
اس ووٹ کے نتائج جلد سامنے آ جائیں گے۔
بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور اس کے ملازمین کے مابین یہ نئی جنگ ہے اور اگر اسے بہت کم کر کے بھی پیش کیا جائے تو ملازمین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کمپنیوں کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔
شینن کہتی ہیں لوگوں کو دو باتیں سمجھنی چاہیں، ایک گوگل کے ملازم چھ اعداد کی تنخواہ حاصل نہیں کرتا اور چھوٹے سے چھوٹے لیول کے ملازمین کے پاس بھی اتنے زیادہ اختیارات ہیں جسے کا انھیں احساس بھی نہیں۔
گوگل نے البتہ اپنی غلطی تسلیم نہیں ہے۔
گوگل نے اس معاہدے میں تسلیم نہیں کیا کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے اور نہ یہ تسلیم کیا ہے کہ کمپنی کنٹریکٹ سٹاف کی مشترکہ آجر ہیں۔
بی بی سی نے شینن کی سٹوری پر گوگل سے ان کا موقف لینے کے رابطہ کیا، تو جواب ملا کہ ہمارے پاس مزید کچھ کہنے لیے نہیں ہے۔
گوگل کو سٹاف مہیا کرنے والی کمپنی ایڈیکو نے بھی بی بی سی کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
شینن واپس گوگل کے ڈیٹا سینٹر میں کام کے لیے واپس نہیں جانا چاہتیں بلکہ ہسٹری میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن شینن نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کرنے سے پہلے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ایک تاریخ رقم کر دی ہے
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).