تہمت گندم و حوا

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ایک ہفتہ ہونے کو آیا، وزیر اعظم صاحب کے ریپ کے بارے میں کہے گئے الفاظ اور پھر ان کی وضاحت کی گونج ختم ہونے میں نہیں آ رہی ہے۔

ریپ کے بارے میں کسی بااثر شخصیت کے کہے یہ پہلے ’غیر ذمہ دارانہ‘ الفاظ نہیں ہیں۔ جب بھی ،جس کے بھی منھ میں جو آیا اس نے کہہ دیا۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے اس جرم کی تکلیف کو اگر ارباب حل و عقد سمجھ پاتے تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔

میں نے وزیراعظم کے بیان کو ایک بار نہیں، بار بار سنا، سیاق و سباق کے ساتھ سنا اور جتنی بار سنا، دُکھ اتنا ہی گہرا ہوتا چلا گیا۔ صرف الفاظ ہی نہیں ان کے پیچھے موجود ایک مخصوص ذہنیت پہ دُکھ ہے۔

وزیر اعظم صاحب کی ایک بہت بڑی اچھائی یہ ہے کہ وہ جھوٹے نہیں۔ مخصوص حالات کے باعث وہ جو بھی سمجھوتے کرتے ہیں لیکن سچ ان کے منھ سے بہرحال پھسل جاتا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم پچھلے دو ڈھائی سال میں بارہا دیکھ چکے ہیں۔

اس معاملے پہ بھی ان کے الفاظ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ ہمارا معاشرہ عورت کو ترغیب کے طور پہ ہی دیکھتا ہے۔ فحاشی صرف عورت کے جسمانی خطوط کا عیاں ہو جانا ہے۔ اس کے آگے فحاشی کی تعریف نہیں بلکہ تصورات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں مجرمانہ سوچ فقط تلذذ تلاش کرتی ہے۔

اس بیان سے چند روز پہلے اُمت اخبار کی سرخی میں زرد صحافت نظر آ چکی تھی۔ ان لوگوں کے الفاظ پہ اب دکھ نہیں ہوتا، یہ تو ایک معمول ہے۔ عورت کو گالی دینا یہ بھی اسی ریپ کلچر کا حصہ ہے جو شاید گلوبل کلچر بن چکا ہے.

ہمارے معاشرے میں دی جانے والی نوے فیصد گالیاں، دراصل ریپ کی دھمکیاں ہوتی ہیں اور جس شخص کی ماں یا بہن کو یہ گالیاں دی جا رہی ہوتی ہیں اس کی ماں، بہن جانے کہاں ہوتی ہیں، پردہ کریں یا نہ کریں، ان کو گالیاں ضرور پڑ جاتی ہیں اور اگر طاقت کا توازن زیادہ خراب ہو تو یہ دھمکیاں سچ بھی ثابت ہوتی ہیں۔

ریپ ایک جرم ہے، طاقت کے اظہار کا حیوانی انداز۔ اس کے لیے کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔

بڑے سے بڑا فلسفہ اسے ’انسانی کمزوری‘ نہیں کہہ سکتا۔ گناہ اور جرم میں ایک بنیادی فرق ہے۔ گناہ انسان کے اپنے ضمیر کا بوجھ ہے لیکن جرم کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے۔

وزیراعظم صاحب کا مقصد یقیناً برا نہیں ہو گا لیکن جس ملک میں ایک نیک نیت حکمران بھی ریپ کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو وہاں عوام کی سوچ کیسی ہو گی؟ سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے۔

ریپ کے بارے میں ایک اور غلط فہمی جو عام ہے وہ یہ کہ یہ جرم صرف عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مرد، کم عمر جوان، بچے اور بچیاں بھی اس سے محفوظ نہیں۔ انسانوں کو چھوڑیے، جانوروں کے ساتھ بھی بدکاری کی معاملات عام ہیں۔

ان سب باتوں کو بارہا دہرانے کے باوجود اگر ہمارے ہاں عمومی سوچ یہ ہی رہی کہ ریپ بے چارے مردوں کی کسی کمزور لمحے کی بھول اور عورت کی ترغیب کا نتیجہ ہوتا ہے تو شاید ہم کبھی مسئلے کی جڑ تک ہی نہیں پہنچ پائیں گے۔

یہ لڑائی نہ عورت مرد کے درمیان ہے نہ مشرق مغرب کی سوچ کے بیچ۔ یہ جنگ ایک جرم کے خلاف جنگ ہے۔ ایک ایسے جرم کے خلاف، جس سے ہر عمر، ہر صنف کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔

جرم کو کم کرنے کے لیے بہت سے سماجی، قانونی اور نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔

بے بس بڑھیوں کی طرح محلے کے غنڈے سے ڈر کے بہو بیٹیوں کو سر، سینہ ڈھک کے رہنے کا مشورہ دینے کی بجائے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں ریپ جیسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو مجرم گردانا جائے اور جہاں اس جرم کی شرح اتنی کم ہو کہ سب لوگ آزادی اور وقار سے سر اٹھا کے جی سکیں۔

ہمیں ایک بہتر معاشرے کی طرف بڑھنا ہے۔ ذہنوں پہ چھائی اس دھند کو جھٹکیے۔ معاشرے کے مسائل کا حل آنکھیں کھول کر تلاش کیجیے۔

بند آنکھوں سے خواب دیکھے جا سکتے ہیں مگر عمل کے لیے آنکھیں کھولیے اور دیکھیے،ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے۔

ریپ ایک جرم ہے اور جرم صرف مجرم ہی کرتے ہیں اور مجرموں کی اصلاح سزا سے ہوتی ہے۔ یہ ایک سادہ سی مساوات ہے۔ اس میں کوئی دوسری بات کرنے کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش۔

اکبر الہ آبادی یاد آ گئے:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سےگڑگیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).