عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کی وجہ فحاشی ہے


خود نمائشی پسماندہ سوچ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اوپر سے نیچے تک خود نمائشی کا ایک تسلسل ہے۔ چونکہ حاکموں کے پاس سرکاری ٹیلی وژن کے علاوہ سرکاری پیسہ ہوتا ہے ، اس لیے وہ ان سہولتوں کو استعمال کرتے ہوئے نجی میڈیا کو خود نمائشی و خودستائشی کے لیے استعمال میں لے آتے ہیں ۔ کتنی سادگی ہے کہ اپنی فوٹو کو دیکھ کر اور اپنی باتوں کو سن کر خوش ہونا اور باتیں بھی وہ جو کسی کتاب یا ریسرچ پیپر سے نہیں پڑھی ہوتیں، بس مختلف جگہوں سے یا لوگوں کے منہ سے سنی ہوئی ہوتی ہیں۔

ان سنی سنائی باتوں کو حق سچ سمجھ کر لوگوں کو سنانا اور ان سے ثابت کرنا کہ میں عالم فاضل ہوں ۔ یہ الجھن کے شکار لوگ جب حاکم بنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ میں باتوں اور چیزوں بارے حقائق تک پہنچ چکا ہوں۔ پھر قومی اخبارات کا پورا پورا صفحہ ان کی فوٹوز سجاتا ہے ، وہ ٹیلی ویژن پر آ کے روزانہ کی بنیاد پر خطاب کرتے ہیں، کبھی وہ کسی روزنامے کے پہلے صفحے پر نمائش کے لیے اپنی بڑی فوٹو لگوا کر ساتھ خادم اعلیٰ لکھواتے ہیں تو کبھی عوام کے مسائل سننے کے لیے ٹیلی وژن پر آ دھمکتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم نے کسی سے زنجیر عدل کا سن لیا ہے اب وہ زنجیر عدل والا کام ٹیلی فون سے لینے لگے ہیں۔ کسی زمانے میں زنجیر عدل ہوا کرتی تھی۔ اب جناب عزت مآب ٹیلی وژن پر بظاہر لائیو فون کال لیتے ہیں، لوگوں کے مسئلے سنتے ہیں اور عوام کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سنڈ کی گھنڈی سے عالج کا طریقہ اپناتے ہوئے عوام کے ہر مسئلے کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ ہر مسئلے کی وجوہات کی ایک لسٹ بنا کر عوام کے گلے میں ڈال دیتے ہیں،  گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سماج میں موجود ساری خرابیوں کا سرکار سے لینا دینا نہیں ہے ، نہ ان خرابیوں کو دور کرنا سرکار کا کام ہے۔  یہ خرابیاں عوام کے چال چلن کہ وجہ سے ہیں۔ اس لیے عوام اپنے چال چلن کو درست کریں تو یہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایٹمی ملک کے سربراہ کی بس اتنی سی  ذمہ داری ہے کہ مسائل کا حل مذہب سے جوڑ جوڑ کر بتاتا جائے ، انہوں نے ایک پروگرام میں کئی دفعہ بتایا کہ یہ خرابیاں مذہب سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ میرے سمیت ملک کے بہت سے لوگ جناب وزیراعظم صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے گاؤں کے امام صاحب نے بھی خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ فحاشی اور عریانی ہی کو بتایا ہوا ہے۔

 یہ ٹیلی فونک سوال و جواب سنے کے بعد مجھے بہت سے دوسرے جرائم کی وجوہات اور ان کی روک تھام کا بھی پتہ چل گیا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی کی زمین چھین لی جاتی ہے، کسی کے گھر ڈکیتی ہو جاتی ہے یا کسی کے گھر پر کوئی قبضہ کر لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کمزور تھے، اس کا حل یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مضبوط کرے۔ اگر کوئی قتل ہو جاتا ہے تو سرکار کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا کیوں کہ مقتول کے پاس بندوق نہیں تھی، اگر تھی تو اس نے پہلے گولی کیوں نہیں چلائی۔

مرد اپنے گھروں ، زمین یا جان کی حفاظت کریں یا نہ کریں، وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ کسی روز ٹیلی فونک گپ شپ میں عورتوں کے لباس کی بناوٹ اور کپڑے کی قسم بتا دیں جس کا فحاشی سے دور دور کا تعلق بھی نہ ہو۔ بہتر ہو گا اگر ساتھ اپنی پسند کے درزی کا پتہ بھی بتا دیں تاکہ عورتیں محفوظ رہ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments