کچرے کے ڈھیر میں دھنستا کراچی



کراچی شہر آبادی کے حساب سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے مگر بدقسمتی سے یہاں ہر اس چیز کافقدان ہے جو ایک عام آدمی کی پرسکون زندگی کے لئے ضروری ہے۔

بجلی کی آنکھ مچولی یہاں عام سی بات ہے شدید گرمی میں بجلی کے بغیر رہنا دیکھنا ہو تو موسی کالونی عیسی کالونی بفرزون شادمان اور بے شمار علاقے ہیں وہاں جاکر دیکھا جاسکتا ہے۔

لوڈ شیڈنگ کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا کنڈا سسٹم بھی ہے جو کے الیکٹرک کے الیکٹریشن معاوضہ لے کر لگاتے ہیں۔ بجلی کے بغیر انسان بھر بھی گزارہ کرلیتا ہے لیکن پانی کے بغیر زندہ رہنا ایک معجزہ ہے اور یہ معجزہ بھی کراچی والے کر کے دکھاتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ غلاظت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ وہاں کے پانی میں شامل ہو رہی ہے

6 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ میں شہر کی آلودگی کے حوالے سے اس وقت کے چیف جسٹس نے پینے کے پانی کے حوالے سے ریمارکس دیے تھے کہ ”پانی میں انسانی فضلہ شامل ہوتا ہے۔“ اس وقت وزیراعلی نے یقین دھانی کرائی تھی کہ ایسا نظام لائیں گے جو سیوریج اور فیکٹریوں کے فضلے کو سمندر تک لے جائے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک کی تاریخ میں ایسا کوئی نظام متعادف نہیں کروایا گیا۔

فیکٹریوں سے نکلنے والا فضلہ اور شہر میں صفائی کے ناقص اقدامات کی وجہ سے برساتی نالے کچرے سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں عوام بھی اپنے طور پر صاف صفائی کا خیال نہیں رکھتی وہیں کراچی شہر میں کچرا اٹھانے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔

دو ہزار پندرہ کی شدید بارشوں کی وجہ سے برساتی نالے ابلنا شروع ہو گئے تھے اور اس وقت بھی کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ناگن چورنگی پر نالے میں پوری گاڑی ڈوب گئی تھی جس میں میاں بیوی اور دودھ پیتا بچہ ہلاک ہو گئے تھے۔ تکلیف تب مزید بڑھ جاتی ہے جب ڈوبنے والے کی میت بھی نہیں ملی۔

شہری آبادی سے گزرتے یہ برساتی نالے کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ کہیں کہیں ان نالوں پر غیر قانونی آبادی ہوجانے کی وجہ سے پانی کی نکاسی رک جاتی ہے۔

اتنے بڑے شہر کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی ایسا نظام لاگو ہونے کے بجائے قبضہ گروپ کی پشت پنہائی کی جاتی ہے۔ جن کی بستیاں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کوئی نہیں اکھاڑ سکتا۔ جیسے پولیس ہاؤسنگ سوسائٹی جس پر قابضین نے اپنی بستی آباد کررکھی ہے اور جب کوئی بے چارا اپنے پلاٹ کو دیکھنے وہاں قدم رکھتا ہے تو اسے گھیر لیا جاتا ہے۔

اسی طرح وہاں کے نالوں پر بستیاں آباد ہو چکی ہیں۔ وہاں رہنے والوں کے بقول انہیں یہ زمین بیچی گئی ہے۔

ایسے میں اب اگر انتظامیہ ان نالوں کی صفائی اور بہاؤ کو ممکن نہیں بناسکتی تو کم از کم ان کے اطراف حفاظتی دیواریں کھڑی کر دے تاکہ نالوں میں کچرے کے ڈھیر میں گر کر ہونے والی اموات پہ قابو پایا جاسکے۔

ہر سال اس شہر کے یہ گندے نالے معصوم بچو کی جان نگل رہیں ہیں۔

چھ اپریل کی شام کو ایک سات سالہ بچہ ناظم آباد نالے میں گر کر جانبحق ہوا۔ اس علاقے ایسا کوئی مددگار ادارہ موجود نہیں تھا جو فی الوقت آ کر مدد کرتا۔ گھر والے اور محلے والے اپنی مدد آپ کے تحت بچے کو ڈھونڈتے رہے لیکن کچرے کے ڈھیر میں اسے ڈھونڈنا آسان نہیں تھا اگلے دن بحریہ کے غوطہ خوروں کی مدد سے بچے کی لاش نکالی گئی۔

کراچی میں کھلے گندے نالوں میں گر کر اور ڈوب کر بچوں کی ہونے والی اموات کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، کے بی آر، غریب آباد، لیاقت آباد، محمودآباد، لیاری، کورنگی، قائدآباد اور سہراب گوٹھ سمیت دیگر علاقوں کے کھلے گندے نالوں میں گر کر بچے اپنی جان کی بازیاں ہار چکے ہہیں۔

کئی واقعات میں بچوں کی لاشیں بھی گندے نالوں سے برآمد نہیں ہوتی۔ اس موقع پر اہل محلہ کا کہنا ہے کہ بچوں کے نالے میں گرنے کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن انتظامیہ بروقت بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے آگے نہیں آتی جس کی وجہ سے نالے میں گرنے والے بچے نہیں مل پاتے۔

نالوں میں کچرہ جمع ہونے کے باعث اس میں سے گزرنے والی پائپ لائنیں بھی مرمت سے رہ جاتی ہیں جس کے باعث حادثات رونما ہوتے ہیں اور انسانی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔

بارہ مارچ کو نیو کراچی میں نالے کی لائن میں دھماکے کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق جبکہ چار افراد زخمی ہو گئے۔ نیو کراچی خمیسو گوٹھ بشیر چوک میں رضوان بیکری کے قریب جمعرات کو نالے کی لائن میں زوردار دھماکہ ہو ا جس کے نتیجے میں وہاں قریب موجود افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکے کی اطلاع پر پولیس رینجرز اور فلاحی اداروں کے رضا کار موقع پر جائے حادثہ پہنچے لیکن تنگ گلیوں اور خراب راستوں کے باعث فلاحی اداروں کے رضا کاروں کو پہنچے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

کراچی شہر میں تنگ گلیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ شہر آگے بڑھتا گیا لیکن کوئی پلیننگ نہیں کی گئی۔ محلے کے محلے آباد ہوتے رہے۔ آبادی کے اس تیزی سے بڑھتے دباؤ اور حادثات کے تناسب کو روکنے کے لئے فوری طور پر کچھ اہم اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اتنے نامساعد حالات کے باوجود یہاں کے لوگ زندہ دل ہیں اس شہر میں ایک رونق نظر آتی ہے۔ اس شہر کی رونقین اپنی جگہ لیکن یہ شہر آہستہ آہستہ کچرے کے ڈھیر میں ڈوب رہا ہے۔ اسے بچانے کے لئے اس شہر کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں دیا جائے جن کی نسلیں یہاں صدیوں سے بسی ہیں۔ ناکہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جو اس شہر کی گلیاں تک نہیں جانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments