آٹو ٹرانسپلانٹ: کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں پاکستان کی تاریخ میں پیوندکاری کا پہلا آپریشن جس میں مریض کا اپنا ہی جگر اسے واپس لگا دیا گیا

محمد زبیر خان - صحافی


جب 28 سالہ صادق شاہ نے اپنے بھائی، پولیس ہیڈ کانسٹیبل محمد شاہ سے سینے میں درد کی شکایت کی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مخصوص عارضے کا کامیاب علاج پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

کوئٹہ اور کراچی کے چند بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹر پہلے ہی جواب دے چکے تھے اور سب کا یہی ماننا تھا کہ وہ آپریشن جس سے صادق شاہ کی جان بچائی جا سکتی ہے، وہ پاکستان میں ممکن ہی نہیں۔

’یہ سن کر ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ بھائی کی زندگی بچانے کے لیے ہم نے جلدی جلدی پاسپورٹ بنوانے کے لیے درخواستیں جمع کروائیں اور ساتھ ہی پیسے اکھٹے کرنے کے لیے قرض لیا اور جو زمین یا جائیداد موجود تھی، اسے فروخت کرنا شروع کر دیا۔‘

ڈاکٹروں کے مشورے پر محمد شاہ اپنے بھائی کو امریکہ یا برطانیہ لے جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ پھر ایک دن کراچی کے ہسپتالوں کے چکر کاٹنے کے دوران کسی نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ ڈاکٹر فیصل سعود ڈار سے رابطہ کریں۔

یہ بھی پڑھیے

صفا اور مروہ کی علیحدگی کا کامیاب سفر

بچے کے دل کے قریب پیوست پیچ کس کیسے نکالا گیا

مرگی کا علاج کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر جنھوں نے اپنے ملک کو امریکہ پر ترجیح دی

ڈاکٹر فیصل کا شمار پاکستان میں جگر کی پیوندکاری میں مہارت رکھنے والے ان چند ڈاکٹروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ سے پانچ سو سے زائد لیور ٹرانسپلانٹ آپریشن کیے ہیں۔

محمد شاہ بتاتے ہیں کہ وہ جب ڈاکٹر فیصل سے ملے تو انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی جان بچانے کے لیے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے اور باہر جانے کا وقت نکل چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں ہی ٹرانسپلانٹ کی سہولت موجود ہے اور یہاں کے ماہر ڈاکٹر یہ آپریشن کر سکتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے ایک جانب انھیں تسلی دی تو دوسری جانب خطرات سے بھی مکمل طور پر آگاہ کیا، جس کے بعد انھوں نے آپریشن کرنے کی اجازت دی۔

محمد شاہ ڈاؤ آنے سے قبل ہی جانتے تھے کہ ان کے بھائی کی جان خطرے میں ہے۔ سینے میں تکلیف کی شکایت کے بعد مقامی ڈاکٹر نے جب ان کے بھائی کا الٹراساؤنڈ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے جگر پر سرطان کی وجہ سے ایک ٹیومر یا رسولی بن چکی تھی۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلیتھ سائنسز کے شعبہ ٹرانسپلانٹ کے سربراہ اور سرجن ڈاکٹر جہانذیب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب مریض ان کے پاس پہنچا تو رسولی جگر سے پھیل رہی تھی۔

’ہمیں خدشہ تھا کہ یہ ایک ماہ میں دل تک پہنچ جائے گی، یعنی مریض کی جان بچانے کے لیے ہمارے پاس محض چند دن ہی تھے۔‘

اگرچہ جگر کی پیوندکاری اب دنیا بھر میں عام ہے تاہم ایک اب بھی ایک انتہائی نازک عمل ہوتا ہے جس میں ایک نہیں، دو جانوں کو بچانا ہوتا ہے: مریض اور اسے جگر عطیہ کرنے والا شخص۔

تاہم ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کے مطابق اس کے مقابلے میں ’آٹو ٹرانسپلائنٹ‘ اور بھی زیادہ نازک آپریشن ہوتا ہے اور اس میں مریض کو اس کا اپنا ہی جگر واپس لگایا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’دنیا بھر میں اب تک ایسے شاید 15، 20 آپریشن ہی ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ ایسے آپریشن کی ضرورت بہت ہی کم پڑتی ہے۔‘

تاہم دونوں ڈاکٹر فیصل اور ڈاکٹر جہانزیب کو مکمل اعتماد تھا کہ ڈاؤ کی ٹیم یہ آپریشن پہلی بار کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر اور سرجن ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے۔ ڈاکٹر جہانزیب نے جگر کی پیوندکاری کی تربیت ڈاکٹر فیصل ہی کی زیرِ نگرانی اسلام آباد کے شفا ہسپتال کے شعبہ ٹرانسپلانٹ سے مکمل کی، جس کے بعد سنہ 2015 میں انڈیا کے پروفسیر ڈاکٹر شباس گپتا کے تعاون سے ڈاؤ یونیورسٹی میں اس کام کا آغاز کیا گیا۔

ڈاکٹر فیصل کے مطابق معمول کے ٹرانسپلانٹ میں مریض کے جگر کو بچانے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ وہ کام کرنا چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دو آپریشن کیے جاتے ہیں، ایک مریض کا اور دوسرا اس شخص کا جس سے جگر حاصل کیا جاتا ہے۔

معمول کے آپریشن میں مریض کے جسم کو بہت ہی کم وقت کے لیے بغیر جگر کے چھوڑا جاتا ہے، مگر آٹو ٹرانسپلائنٹ کی صورت میں مریض کا جگر نکال کر اس کی نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔

ایسا تب کیا جاتا ہے جب مریض کا جگر صحیح کام کر رہا ہو لیکن اس پر موجود رسولی کو بحفاظت نکالنا ممکن نہ ہو۔ چنانچہ آٹو ٹرانسپلانٹ میں مریض کا جگر نکال کر اسے رسولی یا ٹیومر سے پاک کیا جاتا ہے اور پھر وہی جگر واپس لگایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر جہانذیب کے مطابق مریض کے جگر پر نو سینٹی میٹر کا ایک بڑا ٹیومر موجود تھا اور یہ جگر کے ایسے حصے پر تھا جہاں سے خون کی تین شریانیں دل کی طرف جاتی ہیں۔

’ٹیومر اس مقام سے دل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اگر وہ دل تک پہنچ جاتا تو پھر آپریشن ممکن ہی نہیں تھا۔‘

اگر آپریشن کے دوران مریض کے جگر کو ان کے جسم میں ہی رہنے دیا جاتا تو بہنے والے خون کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا اور طویل آپریشن میں زیادہ خون بہنے سے مریض کے لیے شدید مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔

پروفسیر ڈاکٹر جہانذیب حیدر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ مریض کا ’آٹو ٹرانسپلانٹ‘ ہوگا۔

ڈاکٹر فیصل کے مطابق آٹو ٹرانسپلانٹ کے لیے بھی وہی بنیادی صحولیات اور مشینری درکار ہے جو معمول کے پیوندکاری آپریشن کے لیے چاہیے ہوتی ہیں۔ تاہم یہ آپریشن 12 گھنٹے جاری رہا اور اس میں ڈاکٹرز سمیت علمے کے تقریباً 40 افراد نے حصہ لیا!

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ڈاکٹروں نے یہ کامیاب آپریشن کرکے اپنی اعلیٰ مہارت کا ثبوت فراہم کیا ہے، جس پر ہمیں فخر ہے۔‘

آپریشن کی منصوبہ بندی

ڈاکٹر جہانذیب کے مطابق اس آپریشن کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کی گئی۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی سے ایک طویل مشاورت ہوئی جس میں انھوں نے خصوصی طور پر انفراسٹرکچر کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ دیگر سہولتیں فراہم کیں۔

آپریشن سے پہلے ہر طرح سے دیکھا گیا کہ یہ انتہائی خطرناک آپریشن کرنے کا معقول جواز موجود ہے اور پوری طرح جانچ کی گئی کہ ٹیومر جسم کے کسی اور حصے میں تو نہیں پھیلا ہوا اور آیا ٹیومر کے علاوہ جگر پوری طرح کام کررہا ہے یا نہیں۔

آپریشن کی منصوبہ بندی ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کی نگرانی میں کی گئی اور ’پلان اے‘ کے ساتھ ’پلان بی‘ بھی بنایا گیا۔

تاہم ڈاکٹر جہانزیب نے بتایا کہ انھیں پلان بی پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کینکہ پلان اے موثر طریقے سے کامیاب ہوگیا۔

انھوں نے بتایا کہ آپریشن شروع کرنے کے بعد ان کی ٹیم نے مریض کے پورے جگر کو باہر نکالا اور آپریشن تھیٹر میں موجود ایک اور ٹیبل، جس پر عام طور پر دوسرا مریض موجود ہوتا ہے، پر جگر سے ٹیومر ہٹانے کا کام کیا گیا اور اسے مخصوص ادوایات کی مدد سے صاف کیا گیا۔

ڈاکٹر جہانذیب کے مطابق جگر کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے ہر لمحہ برف میں رکھا گیا اور رسولی یا ٹیومر بھی اسی طرے نکالی گئی۔ یہ کرنے کے لیے خون کی تین شریانیں کاٹ کر ان کی جگہ مصنوعی شریانوں کی پیوند کاری یا گرافٹنگ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ ان کے لیے انتہائی نازک تھا کیونکہ انھیں مریض کے جگر سے رسولی کو پوری طرے ختم بھی کرنا تھا جبکہ دوسری جانب مریض کے جسم کو زیادہ دیر تک جگر کے بغیر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔

ان کے مطابق یہ آپریشن تنہا ممکن ہی نہ تھا اور ان کے ساتھ دیگر سرجن مل کر بیک وقت مختلف کام سر انجام دے رہے تھے۔ ’ہر کام کو اپنے مخصوص وقت اور منصوبہ بندی کے مطابق کرنا تھا۔‘

جب 12 گھنٹے بعد ڈاکٹر جہانزیب اور ان کی ٹیم آپریشن تھیٹر سے باہر نکلی تو سب کے چہروں پر تھکن کے ساتھ ساتھ خوشی بھی تھی۔ اس سب نے مل کر نہ صرف ایک قیمتی انسانی زندگی کو بچا لیا تھا بلکہ پاکستان میں پہلی بار یہ انتہائی نازک آپریشن کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔

جگر کے بغیر مریض کے جسم کو کیسے سنبھالا گیا؟

میجر (ر) ڈاکٹر حامد محمود جنھوں نے آٹو ٹرانسپلائنٹ والے مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے کے علاوہ ان کی نگرانی کی تھی، نے بی بی سی کو بتایا کہ جگر کو دو گھنٹے تک جسم کے باہر رکھا گیا تھا جس دوران اس کی سرجری کی گئی۔

اس دوران مریض کے جسم کو سنبھالنا اور مریض کو حفاظتی حصار میں رکھنا انتہائی اہم تھا۔ ان کے مطابق جگر پورے جسم میں کمیائی عمل کے تسلسل کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب جسم میں جگر نہ ہو تو جسم کا توازن متاثر ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر حامد نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی مریض کے جسم کی مختلف طریقوں سے نگرانی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ مختلف ادوایات کی مدد سے جسم کا کمیائی عمل زندہ رکھ رہے تھے تاکہ جگر کو سرجری کے بعد واپس اپنی جگہ پر جوڑا سکے۔

ان کے مطابق مریض کو آپریشن کے بعد آئی سی یو میں سنبھالنا بھی انہی کی ٹیم کی ذمہ داری تھی۔ وہ چھ روز تک آئی سی یو میں رہے، جس کے بعد ان کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

پروفسیر ڈاکٹر جہانذیب حیدر کے مطابق مریض صحت مند ہو رہا ہے اور ابھی تک کسی قسم کی پچیدگی سامنے نہیں آئی ہے۔

دوسری جانب محمد شاہ اور ان کے خاندان کو بھی ایک نئی امید مل گئی ہے۔ ان کے مطابق ان کا بھائی ’زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ وہ ہنستا مسکراتا ہے تو ہم سب بھی جی اٹھتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp