میرا باپ بھی کلمہ گو تھا


پیارے ابو جان!

آپ پر سلامتی ہو، امید ہے کہ اب آپ اللہ میاں کے پاس خیریت سے پہنچ چکے ہوں گے اور اب آپ کو درد بھی نہیں ہو رہا ہو گا۔ یقیناً وہ لوگ بھی وہاں نہیں ہوں گے جنھوں نے آپ کو مارا تھا جن کی وجہ سے آپ ہمیں یوں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کو پتہ ہے جس روز آپ گھر سے ڈیوٹی پر جانے کے لئے نکلے تھے میں نے سوچا ہوا تھا کہ رمضان شروع ہونے والا ہے ، آپ سے کہوں گی کہ اس بار زیادہ سے زیادہ افطار ہمارے ساتھ کیجیے گا۔ ہر بار آپ کی ڈیوٹی کہیں نہ کہیں لگ جاتی ہے کبھی جلسوں پر تو کبھی بازاروں میں رش کے سبب تو کبھی ناکوں پر۔

میں گھنٹوں انتظار کرتی رہ جاتی ہوں ، سوچتی تھی کہ خفا رہوں پر جب آپ کہتے تھے کہ ناں پتر ناراض نہ ہو ، اگر تیرا ابا یا تیرے باپ کی طرح اور پولیس والے یہ ڈیوٹیاں نہ دیں تو باہر نکلنے والے پریشان ہو جائیں گے۔ ہمارے گھر والوں کو، خاص کر ماؤں، بیویوں اور تجھ جیسی شہزادی جیسی بیٹیوں کو بڑا حوصلہ کرنا پڑتا ہے ، تب ہی تو ہم بھی گھر آ کر ساری تکان بھول جاتے ہیں۔

آپ کو یاد ہے مجھے بڑا برا لگتا تھا جب کوئی مجھے کہتا تھا کہ پولیس والے اچھے نہیں ہوتے اور میں آپ کو بتاتی تھی کہ آج مجھ سے کسی نے ایسا کہا ہے تو آپ سن کر مسکراتے اور کہتے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ میں تمہارا ابو ہوں تمہیں نظر آتا ہے کہ کتنی محنت کرتا ہوں، بس اتنا کافی ہے۔

لیکن ابو، میں اس بار بہت پریشان ہوں۔ مجھے آپ کی لمبی لمبی ڈیوٹیوں سے اب شکوہ نہیں رہا تھا۔ آپ شہر میں میچز ہوتے تو جاتے، سیاسی جلسے ہوتے تو جاتے، ہنگامے ہوتے تو بھی جاتے، عید، رمضان، محرم، ربیع الاول کے جلوس ہوتے تو بھی جاتے، کہیں بم دھماکہ ہوتا تو بھی جاتے پر کسی نہ کسی پہر گھر لوٹ آتے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔ میری دوست کہتی ہے کہ تمہارے ابو اس لئے نہیں آئے کہ انھیں شاید کلمہ نہیں آتا یا وہ بھول گئے تو انھیں اس پر مارا پیٹا گیا ہے۔

میں اس سے لڑی ہوں میں نے اسے کلمہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ آپ نے مجھے کلمہ پڑھنا سکھایا ہے۔ جب میں نے نیا نیا بولنا سیکھا تو آپ نے مجھے اللہ کہنا سکھایا تھا۔ کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سکھایا۔ میں جب اسکول میں اچھا کام کرنے پر گڈ اور اسٹار لیتی تو آپ میری کاپی دیکھ کر ماشاء اللہ کہتے اور میرا ماتھا چومتے تھے۔ رات جب مجھے ڈر لگتا تو آپ مجھے کہتے چاروں قل پڑھو میں اٹک جاتی تو آپ پڑھتے اور کہتے ہو گیا اب سو جاؤ۔ بابا آپ کلمہ نہیں بھول سکتے آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔

میں بہت پریشان ہوں، امی کے پاس بہت سے لوگ آ رہے ہیں ، انہیں تسلی دے رہے ہیں ، انہیں کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک شہید کی بیوہ ہیں لیکن کچھ لوگ موبائل پر جو ویڈیوز دکھا رہے ہیں اس میں بہت سارے لوگ اللہ اور رسول کا نام لے کر پولیس والوں کو گھسیٹ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم نے یہودی کو پکڑ لیا ہے۔ کچھ پولیس والے انکلز کو یرغمال بنا کر ان سے زبردستی لبیک کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ کچھ کو مجمع بری طرح مار رہا ہے اور پھر ویڈیو ختم ہو جاتی ہے ، پتہ نہیں چلتا کہ وہ پولیس والے انکل زندہ بچے یا نہیں؟

میں بہت پریشان ہوں۔ جن لوگوں نے آپ کو پکڑا تھا ، کیا انھوں نے آپ کو صرف اس لئے مارا کہ آپ پولیس والے ہیں؟ کیا انھوں نے آپ سے کوئی نعرہ لگانے کو کہا تھا؟ کیا کلمہ پڑھنے کا کہا تھا؟ کاش کہا ہوتا آپ کو تو سب آتا ہے ، آپ پڑھ دیتے تو آج ہم ساتھ ہوتے۔ اگر نہیں کہا تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ صرف مارنے والے لوگ تھے؟ کیا وہ مسلمان تھے؟ وہ خود کو رسول کا چاہنے والا کہہ رہے تھے بابا۔ لیکن آپ تو ہمیشہ کہتے تھے کہ ہمارے نبی پاک ﷺ نے خود پر کچرا پھینکنے والی عورت کو بھی برا نہیں کہا۔ طائف والوں کو بھی بد دعا نہ دی۔ یہ کیسے عاشقان رسول ہیں جنھوں نے میرے بابا مجھ سے چھین لیے؟ بابا یہ کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں جنھوں نے دوسرے مسلمان کو قتل کیا۔ جنھوں نے اپنے ہی لوگوں کو تکلیفیں دیں، خون خرابہ کیا، راستے بند کیے ، توڑ پھوڑ کی اور پولیس کو صرف اس لئے مارا کہ وہ حکومت کو تابع کر سکیں۔

بابا مجھے اب ڈر لگتا رہے گا۔ آپ چلے گئے ہیں ، رمضان آ چکے ہیں ، عید بھی آ جائے گی اور اس بار آپ نہیں ہوں گے۔ لیکن ایک بات کہوں؟ اب جب بھی میں کوئی پولیس والے انکل دیکھوں گی تو مجھے ڈر لگے گا کہ کوئی بھی انھیں کافر کہہ کر مار دے گا۔ آپ کہتے تھے کہ تم سب حوصلہ کرتے ہو تو ہم اتنی سخت ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ اب آپ کے جانے کے بعد حوصلہ ٹوٹ گیا ہے۔

بھائی تو پتہ نہیں کب بڑا ہو گا لیکن اسے اب کلمہ تو شاید وقت سکھا دے لیکن میں اسے یہ بات دن رات ضرور سکھاؤں گی کہ بھائی تم نے پولیس میں نہیں جانا ہے ، ورنہ کل کو کوئی بھی انتہا پسند تمہیں کافر کہہ کر قتل کر دے گا۔ تم کریانے کی دکان کھول لینا، تم کسی پیٹرول پمپ پر پٹرول بھرنے کی نوکری کر لینا، تم کوئی ریڑھی لگا لینا،  تم کوئی گاڑی، چنگچی رکشہ چلا لینا بس پولیس میں مت جانا۔ لیکن بابا میں پھر پریشان ہو گئی ہوں ، بھائی یہ کام کرتے ہوئے بھی کیسے بچ پائے گا؟ جس روز آپ نہیں رہے اس روز گاڑیاں بھی تو توڑی گئیں تھیں، چنگچی بھی تو جلائی گئی تھی۔ یعنی یہ خوف عمر بھر کا ہے،  یہ رونا زندگی بھر کا ہے۔ بابا آپ کیوں چلے گئے؟

میں ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی جنھوں نے آپ کے ساتھ ایسا کیا اور جب تک میں معاف نہیں کروں گی میرا رب بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔ میرے پاس اب آپ تو نہیں لیکن یہ حق ضرور بچا ہے جو مجھ سے آپ کو چھیننے والے کبھی نہیں لے پائیں گے۔  یہ حساب روز محشر اسی رب اور نبی پاک ﷺ کی بارگاہ کے روبرو ہو گا جس کا نام لے کر اس جتھے نے مجھ سے میرا مان میرا سایہ چھینا ہے۔ میں انھیں معاف نہیں کروں گی۔

فقط آپ کی بیٹی
(اس خط کے کردار فرضی ہیں ، اس کا مقصد اس واقعے سے متاثر خاندانوں کا دکھ بیان کرنا ہے)

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments