رحمٰن کے پسندیدہ بندے


سب سے پہلے میں اپنی قوم کو رحمتوں بھرے مہینے رمضان کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو چاروں طرف سے وباؤں میں گھری ہوئی ہے۔ اس مبارک مہینے میں قرآن حکیم کا نزول شروع ہوا تھا جو رشد و ہدایت کا آخری آسمانی صحیفہ ہے۔ اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اصلی بندوں میں کس طرح کے اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ سورۂ فرقان میں ان صفات کی نہایت عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔

اگر ہمارے ارباب اختیار، ہمارے اہل دانش، ہمارے اہل قلم، ہمارے دینی رہنما، ہمارے اساتذہ اور ہمارے عامۃ الناس سورہ فرقان کی ان آیات کا بار بار مطالعہ کریں اور ان کا عملی نمونہ بن جائیں تو ہمارے حالات میں حیرت انگیز طور پر خوشگوار بہتری آ سکتی ہے اور ہم تضادات کے عذاب سے ہمیشہ کے لیے نجات پا سکتے ہیں۔ یہ جو ہمیں قدم قدم پہ احساس ہو رہا ہے کہ ہماری قومی سلامتی اور ہمارا پورا سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی نظام سخت خطرے میں ہے، اس کی جگہ امید اور یقین کے چمن کھل اٹھیں گے۔ ہم سورہ فرقان کی آیات 62 تا 76 کا ترجمہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ترجمہ قرآن مجید سے پیش کر رہے ہیں:

”رحمٰن کے (اصل) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں، تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بہت برا مستقر اور مقام ہے۔ جو خرچ کرتے ہیں، تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ اللہ کی حرام کی ہوئی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے۔ نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔ قیامت کے روز اسے مکرر عذاب دیا جائے گا اور اس میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ الاّ یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد ) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں میں بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔

” (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں ) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ وہ دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا‘ ۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور مقام۔“

ان آیات مقدسہ میں رحمٰن کے بندے کا ایک جامع اور حیات آفریں سروپا بیان کر دیا گیا ہے۔ اسے اپنا لینے سے زندگی میں راحت بھی پیدا ہو گی اور گہری معنویت بھی اور ہم دنیا کی امامت کا کام سرانجام دینے کے اہل بھی ہو جائیں گے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس ترجمے میں دو حواشیوں کا بھی اضافہ کیا ہے جن سے عصرحاضر کی بیماریوں کی نشان دہی بھی ہوتی ہے اور شرف انسانیت کی وسعتوں کا بھی احاطہ موجود ہے۔ ’نرم چال‘ کی تشریح میں لکھا ہے کہ تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے۔ جباروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی چال ایک شریف، سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے۔

قرآن حکیم نے ’نرم چال‘ کے عظیم حکمتوں سے معمور دو الفاظ میں تکبر کے تمام سومنات زمیں بوس کر دیے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جو فساد برپا ہے، وہ متکبرانہ رویوں ہی سے پیدا ہوا ہے اور کورونا وائرس کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ویکسین بھی اس کا مستقل علاج نہ ثابت ہو۔ ہم اپنے آس پاس دوستوں اور بڑی شخصیتوں کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھ رہے ہیں، مگر ہماری اکڑی ہوئی گردن مزید اکڑتی جا رہی ہے اور باہمی خیرخواہی کے اظہار کے بجائے دشنام طرازی کا ہلاکت خیز کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں رحمٰن کے بندے شائستگی، متانت، خوش خلقی اور محبت فاتح عالم کو فروغ دیتے ہیں۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے رحمٰن کے بندوں کی ایک اور صفت کی بھی تشریح کی ہے جسے اپنا لینے سے ہماری زندگی کا محور ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ دعا کہ ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا، اس میں یہ انقلاب آفریں تصور بھی شامل ہے کہ ہم تقویٰ اور اطاعت میں سب سے بڑھ جائیں، محض نیک نہ ہوں، بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مال و دولت اور شوکت و حشمت میں نہیں بلکہ نیکی و پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رحمٰن کے بندوں کی یہ صفت اگر ہمارے اندر پیدا ہو جائے تو اقتدار، زن، زر اور غلبے کی خونخوار ہوس دم توڑ دے گی، انسان بیدار ہوتا جائے گا۔

اس ہفتے صحافت کی دو بڑی شخصیتیں جناب آئی اے رحمٰن اور جناب ضیاء شاہد اس دنیا سے کوچ کر گئے جو اپنی بیش بہا خوبیوں کی بدولت طویل عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔ آئی اے رحمٰن نے آزادی صحافت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر عمر بھر جدوجہد کی اور اپنی وضع داری سے شناساؤں اور عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ پیدا کیا۔ جناب ضیاء شاہد نے صحافت کا آغاز ماہنامہ اردو ڈائجسٹ سے کیا اور پھر غیرمعمولی محنت سے اپنی ایک ایمپائر قائم کی اور صحافت میں نت نئے تجربات سے اپنی انفرادیت قائم کی۔

اللہ تعالیٰ ان اصحاب کی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبرجمیل سے نوازے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments