حمل خارج الرحم (Ectopic pregnancy) جان لیوا ہو سکتا ہے


فون پر میرے کزن کی گھبرائی ہوئی آواز نے تو مجھے بھی گھبرا دیا۔ وہ نارتھ ناظم آباد کے نجی اسپتال سے کال کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ماریہ کو دو دن سے پیٹ کے نچلے حصے میں ہلکا ہلکا درد تھا۔ آج اس درد نے شدت اختیار کر لی۔ پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے کی شکایت کی اور پھر سانس میں تکلیف شروع ہو گئی۔ وہ لمبے لمبے سانس لینے کی کوشش کر رہی ہے مگر سانس نہیں آ رہا۔ اس سے پہلے اسے دمے کی شکایت نہیں تھی۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں ایکٹوپک ہے، فوری طور پر بڑا آپریشن کرنا پڑے گا۔ کیا واقعی آپریشن کی ضرورت ہے؟

میں نے اس سے کہا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپریشن کے اجازت نامے پر دستخط کر دے۔ اگر فوری آپریشن نہ کیا گیا تو جان جانے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ آخری جملہ میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ مجھے جلد سے جلد نارتھ ناظم آباد پہنچنا تھا۔

ماریہ کی فیلوپین ٹیوب پھٹ چکی تھی اور بہت سا خون اس کے پیٹ میں بھر گیا تھا۔ خون کی شدید کمی کی وجہ سے وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی۔ آپریشن کر کے پھٹی ہوئی ٹیوب کو کاٹ دیا گیا۔ خون کی کئی بوتلیں چڑھائی گئیں اور اڑتالیس گھنٹے آئی سی یو میں رہنا پڑا۔

رات کے نو بجے تھے۔ چھوٹی بھاوج مدیحہ نے فون کر کے بتایا کہ صبح سے پیٹ کے نچلے حصے میں درد ہو رہا ہے۔ میرے کان کھڑے ہوئے، جب اس نے کہا کہ رفع حاجت کے لیے بیٹھتے وقت بہت تکلیف ہو رہی ہے اور فراغت کے بعد کھڑے ہونے پر چکر آتے ہیں۔ لمحے بھر کو نظر دھندلا جاتی ہے۔ میں نے دریافت کیا آخری ماہواری کب آئی تھی، اس نے یاد کرتے ہوئے کہا شاید پانچ یا چھ ہفتے قبل۔ میں نے اس سے کہا ہوم پریگنینسی کٹ سے چیک کرے حمل تو نہیں۔

ذرا سے تذبذب کے بعد اس نے ٹیسٹ کیا اور بتایا پازیٹو ہے۔ میں نے بھائی سے بات کی اور مدیحہ کو اسپتال لے جا کر خون ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ کروانے کا مشورہ دیا۔ وہ اس وقت کوئی انگریزی فلم دیکھ رہا تھا۔ لاپروائی سے بولا کل صبح لے جائے گا۔ میرے ڈپٹنے پر مدیحہ میاں کی حمایت کو آ گئیں اور کہا درد اتنا شدید نہیں، کل صبح چلے جائیں گے۔

اگلی صبح فون کر کے اسے دوبارہ تاکید کی کہ آفس جانے سے پہلے اسپتال لے کر جائے، یہ حمل خارج الرحم معلوم ہوتا ہے۔ اسپتال میں خون ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ سے شبہ کی تصدیق ہو گئی۔ کی ہول سرجری کے لئے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ ٹیوب پھول کر کپا ہو رہی تھی اور کسی بھی ثانیے پھٹا چاہتی تھی۔ متاثرہ ٹیوب کاٹ دی گئی۔ شام تک اٹھ کر چلنے پھرنے کے قابل ہو گئی۔ اگلے روز اسپتال سے رخصت مل گئی۔

فرحانہ کی شادی کو ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا، کل ہی ہنی مون سے لوٹی تھی۔ پیٹ میں ہلکا سا درد شروع ہوا اور زیر جامے پر خون کے دھبے بھی دکھائی دیے۔ ماہواری کی تاریخ سے چار پانچ دن اوپر ہو گئے تھے اس نے سوچا متاخر ماہواری کی ابتدا ہے۔ شادی سے پہلے بھی ماہواری کے دوران درد ہوتا تھا، اس لئے اس نے درد دور کرنے کی دو گولیاں کھا لیں۔ مگر درد کو افاقہ نہ ہوا تو نزدیکی اسپتال سے انجکشن لگوانے کے لئے رجوع کیا۔

ڈاکٹر نے معائنے کے بعد حمل کا ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ کیا۔ رپورٹس سے معلوم ہوا کہ حمل خارج الرحم ہے لیکن بہت ابتدائی حالت میں ہے لہٰذا اسے زائل کرنے کے لئے اس کے بازو میں ایک انجیکشن لگایا گیا۔ چوتھے اور ساتویں دن خون کے نمونے لیے گئے اور تین ہفتوں میں حمل کا ٹیسٹ نیگیٹو ہو گیا۔

قارئین! مندرجہ بالا تین منظر نامے حمل خارج الرحم (Ectopic pregnancy) کی تین مختلف حالتوں کو پیش کرتے ہیں۔ حمل خارج الرحم ایک خطرناک کنڈیشن ہے جسے نظر انداز کیا جائے تو جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔

حمل خارج الرحم کیا ہے؟

بچے کی نمو اور افزائش کا صحیح مقام رحم ہے۔ آنے والے مہمان کے لئے رحم کی دیوار خوب گداز اور جاذب ہو جاتی ہے۔ اور ننھے مہمان کا بستر تیار کر لیا جاتا ہے۔ بچے کی نشوونما کے ساتھ ساتھ رحم اپنے حجم اور بچے کی خوراک کی ترسیل میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نو مہینے پرورش کرنے کے بعد رحم اپنے بند دروازے کھولتا ہے اور ننھی جان کو دنیا میں اتار دیتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی حمل رحم کے بجائے فیلوپین ٹیوب (fallopian tube ) میں ٹھہر جاتا ہے۔

یہ پتلی سے نالی بیضہ دانی اور رحم کے بیچ کاریڈور ہے۔ یہ اپنے مخملی پنجے سے بیضہ دانی سے بیضہ اٹھاتی ہے اور نطفہ (sperm) کے سپرد کر دیتی ہے۔ ان دونوں کے ملاپ سے حمل کی ابتدائی حالت ذائگوٹ جنم لیتی ہے جسے ٹیوب کے برش (cillia) دھکیل کر جوف رحم میں پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کسی خرابی یا رکاوٹ کے سبب یہ ذائگوٹ ٹیوب میں ہی رہ جائے تو اسے حمل خارج الرحم کہا جاتا ہے۔ پتلی سی نالی میں حمل کے استقرار کی اہلیت نہیں ہوتی اس لیے وہ کچھ دن تو مہمان کو رکھ سکتی ہے مگر بڑھتے ہوئے جنین کے حجم کی تاب نہ لاتے ہوئے پھٹ جاتی ہے۔ اس کے پھٹنے سے خون بہتا ہے مگر باہر نہیں آتا یا معمولی سا دھبہ لگتا ہے۔ یہ خون پیٹ میں رستا رہتا ہے اور اگر بروقت نہ روکا جائے تو جان لیوا ہو سکتا ہے۔

اگر مانع حمل چھلہ رحم میں موجود ہو تب بھی حمل خارج الرحم ٹھہر سکتا ہے۔

برطانیہ میں ہر نوے میں سے ایک حمل خارج الرحم ہوتا ہے پاکستان میں یہ نسبت 1 : 125 ہے۔ اگر حمل خارج الرحم (Ectopic) کی تشخیص ابتدا ہی میں ہو جائے تو صرف ایک عضلاتی انجکشن سے حمل کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے جیسا کہ فرحانہ کے کیس میں کیا گیا۔ اس انجیکشن کے بعد تین مہینے تک مانع حمل اقدامات کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ دوا کے حمل کش اثرات نئے حمل پر نہ پڑیں۔ اگر تشخیص تھوڑی سی متاخر ہو لیکن ابھی ٹیوب سلامت ہو۔

نبض اور بلڈ پریشر نارمل ہوں، تو پیٹ میں تین کی ہول کر کے لیپرواسکوپ کے ذریعے۔ متاثرہ ٹیوب نکالی جا سکتی ہے۔ یہ طریقہ مدیحہ کے کیس میں اپنایا گیا۔ اگر وارننگ سگنلز کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہے تو بالآخر ٹیوب پھٹ جاتی ہے اور خون بہنا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ جسم کا سارا خون رگوں سے نکل کر پیٹ میں اکٹھا ہو جائے اور مریضہ کی جان پر بن آئے۔ ماریہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔

لہذا وہ تمام خواتین جو حامل ہونے کی عمر میں ہوں تشخیص حمل کی کٹ ہمیشہ گھر میں رکھیں۔ پازیٹو ٹیسٹ کے ساتھ پیٹ کے درد کو معمولی نہ سمجھیں اور کسی ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جہاں حمل کا خون ٹیسٹ اور اندرونی الٹراساؤنڈ (trans vaginal ultrasound) کی سہولت موجود ہو تاکہ تشخیص اور علاج میں تاخیر اور تعطل نہ ہو۔

ایک ٹیوب کے نکالنے کے بعد دوسری ٹیوب کے ذریعے حمل ٹھہر سکتا ہے۔ ریاضی کے قاعدے کے مطابق تو پچاس فیصد امکان رہتا ہے، لیکن ایک ریسرچ کے مطابق 65 فی صد خواتین سال ڈیڑھ سال میں دو بارہ حامل ہو جاتی ہیں۔ ایک بار حمل خارج الرحم ہو جائے تو دوبارہ ہونے کا امکان دس فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے ایسی خواتین کو ہر حمل کی ابتدا ہی میں الٹراساؤنڈ کروانا چاہیے تاکہ مکان حمل کا تعین ہو جائے۔ اگر حمل جوف رحم (uterine cavity) میں اپنے صحیح مقام پر ہے تو بس بے فکر ہو جائیں۔ اپنی میاں کو خوشخبری سنائیں اور خوب نخرے اٹھوائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments