ہر پل کا شاعر: ساحر لدھیانوی


(ساحر کے ایک سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے )

گزشتہ صدی میں برصغیر کے ترقی پسند ادب میں دو نام معتبر اور غالب رہے ہیں. ان میں ایک مجاز اور دوسرے ساحر ہیں۔ لدھیانہ سے تعلق رکھنے والا عبدالحئ جو بعد میں ساحرلدھیانوی کے نام سے متعارف اور معروف ہوا ، ایک پسماندہ طبقے کا فرد تھا جس نے اپنے اردگرد معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں کا احساس کیا اور قلم اٹھایا۔ نہ صرف زبان و بیان سے ان ناہمواریوں کے خلاف بات کی بلکہ عملی جدوجہد سے اپنے سچے اور مخلص ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

اس نے اپنی شاعری کے ذریعے غریب اور پسے ہوئے طبقات میں جتنی مقبولیت حاصل کی ، وہ فیض کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہ ہوئی۔ ساحر نے اگر فلمی شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا تو وہاں بھی لب و رخسار اور عشق و محبت کے تذکروں سے زیادہ انہی معاشرتی مظالم اور ناہمواریوں کو موضوع بنایا۔

وہ ترقی پسند ادباء و شعراء کی کہکشاں کے نمایاں اور روشن ترین ستارے تھے۔ اشرافیہ نے ساحر کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جس سے ساحر کے لفظوں سے مزید درد، کرب اور دکھ برآمد ہوا۔ ایک صدی قبل پیدا ہونے والے اور چالیس برس قبل دنیا چھوڑ کر جانے والے اس انسٹھ سالہ غریب انسان کا آج تک ہر نوجوان اور پسماندہ انسان کے دل پر قبضہ برقرار ہے۔

ساحر لدھیانوی ایک ایسے ترقی پسند شاعر ہیں جو اپنے نغموں ، اپنی نظموں اور اپنی شاعری کے وسیلے سے ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں۔ ایک تأثر یہ بھی ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء میں فیض احمد فیض کی مقبولیت کے سبب کسی دوسرے شاعر کا تذکرہ کم ہی کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ساحر بھی اس تأثر کی زد میں آ جاتے ہیں۔ فیض کی طرح ساحر کے لیے یادوں کا سلسلہ قائم نہیں کیا جاتا۔ ساحر کی شاعری اور ترقی پسند تحریک میں کردار پر زیادہ بات نہیں کی جاتی۔

ساحر کی شخصیت کے حوالے سے تقاریب کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔ لوگ فلمی شاعری کی حد تک ساحر کو ایک فلمی شاعر سمجھتے ہیں مگر ساحر کی اصل شناخت اور شخصیت کو اجاگر کرنے کے لیے انہیں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔

اس سارے تأثر کے ازالے کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد چیپٹر نے ساحر کے ایک سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے تین روزہ ”جشن ساحر“ کا شاندار اہتمام کیا۔ انجمن کی صدر محترمہ نجمہ ریحانہ اور سیکریٹری عبدالقادر غوری نے جس محنت اور جانفشانی سے پورے تین دن ساحر کے حوالے سے دنیا بھر کے ترقی پسند اور غیر ترقی پسند ادباء، شعراء ، تحریکوں کی متحرک شخصیات اور اہل دانش سے ان کے تاثرات جمع کیے اور ساحر کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر معلومات کا ذخیرہ سامنے آیا، وہ اپنے مقام پر نہ صرف لائق تحسین و ستائش ہے بلکہ ایک تاریخی قدم اور تاریخی کام ہے۔

تین روزہ ”جشن ساحر“ میں جناب افتخار عارف اور جناب اختر عثمان جیسی قدآور شخصیات نے جس طرح ساحر کی شخصیت اور خدمت پر بات کی ، وہ بھی ایک یادگار دستاویز ہے۔ ساحر بلاخوف تردید اور جرأت کے ساتھ انسان کے بنیادی جذبات اور بنیادی مسائل کو بغیر کسی لفظی پیچیدگی یا انداز دانشوری کے بیان کر دیتا ہے۔ ساحر کے بیان میں سادگی ، سچائی اور خلوص پایا جاتا ہے۔ ساحر نے اگر کہیں محبت اور عشق کو موضوع بنایا ہے تو وہاں بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے کھلا اظہار کر دیا ہے۔

اس نے محبت کا میدان فقط معشوق کے لیے نہیں سجایا بلکہ اس نے محبت کے معاملے میں ممتا اور ماں کو بھی سامنے رکھا ہے۔ محبت کے میدان میں معاشرے کے پسماندگان کو بھی شامل رکھا ہے۔ محبت کے معاملے میں اس نے قدرتی شاہکاروں اور فطری مناظر کو بھی جگہ دی ہے۔ ساحر کے فلسفہ محبت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کو پڑھنے اور سننے والا ساحر کی بات کو اپنی بات، ساحر کی محبت کو اپنی محبت ، ساحر کے خوشی کو اپنی خوشی، ساحر کے غم و درد کو اپنا غم و درداور ساحر کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے۔ ساحر نے ہمیشہ اپنے درد کو لوگوں کے اندر دیکھا اور لوگوں کے اندر سے اٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر بیک وقت ہر زمانے کے پسماندہ شخص اور ہر زمانے کے نوجوان کا شاعر رہا ہے۔

بظاہر یہ دو مختلف جہتیں اور انداز ہیں کہ ایک انسان ایک ہی وقت پسماندہ انسانوں کا ترجمان بھی ہو اور محبت کرنے والے جوانوں کا بھی آئیڈیل ہو۔ بعض طبقات اس مقبولیت میں بھی منفیت تلاش کرتے ہیں اور ساحر کو فقط جوانوں کا شاعر قرار دے کر اس کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ساحر نے مذکورہ دونوں طبقات کی ترجمانی انہی طبقات کے دلوں کے قریب اور اذہان کے مطابق رہ کر کی ہے۔ ساحر نے ان دونوں طبقات کو اپنے لفظوں سے نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ مرید بھی کیا ہے۔ ساحر کے اندر فن مسحوری تو یقیناً پایا جاتا ہے ، وہ اپنے کھرے اور سچے لفظوں سے معاشرے کے ہر استحصال زدہ اور پریشان انسان پر اپنا سحر قائم کردیتا ہے ، ساحر کو دنیا سے گزرے ہوئے چار دہائیاں بیت گئیں مگر ساحر کا سحر آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

ساحر کی شاعری تو پچھلے اسی سال سے ہمارے ادبی ، فلمی اور ترقی پسند طبقات میں زیربحث چلی آ رہی ہے۔ ساحر کبھی بھی نظریاتی سطح پر کمزور نہیں دکھائی دیا بلکہ ایک توانا ترین آواز بن کر زندہ رہا ہے۔ وہ اپنے نظریات اور انسان دوستی سے لوگوں کی دلوں میں جگہ بناتا ہے۔ وہ ہمیشہ ان دکھی، استحصال زدہ اور مظلوم لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آتا ہے جنہیں کوئی گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کے بعض گیتوں اور نظموں کو منفی تأثر میں پیش یا بیان کیا جاتا ہے لیکن وہ گیت اور نظمیں بھی تنقیدی فکر کی حامل نظر آتی ہیں ، ان میں بھی معاشرے کے تلخ حقائق اور الم ناک مسائل پر احتجاج موجود ہے۔

یہ انداز ہی ساحر کو دیگراں سے ممتاز کرتا ہے۔ ساحر محبوبہ سے بات کرتے ہوئے بھی معاشرتی سچائیوں پر بات کرنا ترک نہیں کرتا اور محبت کے ضمن میں انسانی مسائل اور برپا کیے جانے والے ظلم پر احتجاجی بات کر جاتا ہے۔ اس انداز سے جہاں ساحر کی شخصیت کی انفرادیت قائم ہوتی ہے، وہاں ادب بالخصوص ترقی پسند ادب میں شاندار اضافہ اور لازوال اثاثہ سامنے آتا ہے جو ساحر کے فن کو لمبی زندگی اور دوام بخشتا ہے۔

لطف یہ ہے کہ ساحر نے نظم اور نثر دونوں میں ایک ہی انداز یعنی ترقی پسندانہ انداز اختیار کیے رکھا ہے۔ ساحر کی چھوٹی نظمیں ہوں یا طویل ناول ہر جگہ ہمیں اپنا ہی مخصوص انداز نظر آتا ہے۔ فیض اور مخدوم اگرچہ ترقی پسندی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور ان کے بیان کا اسلوب جداگانہ ہے ۔ لگتا ایسے ہے جیسے یہ دونوں شخصیات مسائل کی دنیا سے خود ہو کر نہیں آئے یا مصائب سے خود نہیں گزرے یا مظالم کی زد میں خود نہیں آئے یا استحصال کا بذات خود شکار نہیں ہوئے بلکہ معاشرے کے دوسرے انسانوں کا کرب بیان کرتے رہے ہیں لیکن مجاز اور ساحر ایسے لوگ تھے جنہوں نے اوائل عمری سے مسائل کا خود سامنا کیا ہے۔مصائب خود اپنی ذات پر برداشت کیے ہیں۔ مظالم کا شکار بھی خود ہوئے ہیں اور استحصال کے کرب سے بھی خود گزرے ہیں۔

یہی سبب ہے کہ ان کی اوائل عمری کی شاعری میں بھی وہی اثر اور جاذبیت پائی جاتی ہے جو آخری ایام میں تھی۔ ساحر کی ابتدائے عمر کی شاعری بھی ویسے ہی مقبول رہی ہے جیسے ان کے عروج کے زمانے کی شاعری رہی۔ آپ بیتی اور خود گذشتی ہی ایسے عناصر ہیں جو ساحر کو فیض اور مخدوم سے منفرد کرتے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد کا ”جشن ساحر“ ایسے موقع پر منعقد کیا گیا جب ایک طرف دنیا کورونا کے سبب زندہ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہے بلکہ زندہ رہنے کے لیے لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ دوسری طرف مجموعی طور پر ادیبوں اور شاعروں کی تکریم کم کرنے کے سلسلے بھی جاری ہیں ، گذشتگان کو یاد کرنے کی محفلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ ادبی محفلوں میں بھی گذشتگان کے تذکرے بہت کم ملتے ہیں چہ جائیکہ ان کے لیے تین دن نکالے جائیں۔

ترقی پسندوں میں تو یہ کلچر بہت خطرناک حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ ان کے اندر شکست و ریخت اورٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ باہمی احترام اور برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ علمی و ادبی ماحول کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پسند طبقات ادبی اور سیاسی میدان میں روز بروز تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ ترقی پسندوں کے اندر لکھنے پڑھنے ، تقابلی مطالعے اور فکری بالیدگی کے انداز ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں ساحر جیسے انسان پر بات کرنا ، ساحر کے لیے وقت نکالنا، ساحر کو خراج تحسین پیش کرنا اور ساحر کو زندہ رکھنا بہت عظیم کارنامہ ہے۔

یادوں کے یہ سلسلے صرف ساحر کی ذات نہیں بلکہ ترقی پسند فکر ،ترقی پسند نظریات، ترقی پسند افکار ، ترقی پسند شخصیات اور ترقی پسند طبقات کی ترقی و تعارف کا سبب رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments