کیا تحریک لبیک پر پابندی ہی حل ہے؟


مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں شروع کیے جانے والے پرتشدد احتجاج، سڑکوں پر دھرنے، توڑ پھوڑ، آتش زنی، اہم شاہراہوں کی جبری بندش، شہریوں کے معمولات زندگی درہم برہم کرنے، پولیس پر حملوں، تصادم، بعض قیمتی جانوں کے اتلاف اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورتحال پر قابو پانے کے لئے بالآخر وفاقی کابینہ نے جہاں متاثرہ شہروں میں پیراملٹری فورسز طلب کرنے کی منظوری دے دی، وہیں وزیراعظم عمران خان نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی کابینہ 24 گھنٹے میں سرکلر سمری کے ذریعے پابندی کی منظوری دے گی، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کاڈیکلریشن سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن تحریک لبیک کو ڈی نوٹیفائی کرے گا اور ان کے تمام ارکان اسمبلی نا اہل ہو جائیں گے۔

تحریک لبیک کے احتجاج پر وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ شرپسند عناصر کو احتجاج کی آڑ میں ملکی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس تنظیم کا ایجنڈا کچھ اور ہے، میں خود ختم نبوت کا مجاہد ہوں، (ن) لیگ نے ختم نبوت پر ترمیم کی تو میں نے اسمبلی میں آواز اٹھائی، جس ملک میں وزیر داخلہ ختم نبوت کا مجاہد ہو، اس ملک میں کوئی ختم نبوت کا مسئلہ نہیں، ہمارے دور میں ناموس رسالت کے خلاف کوئی کام نہیں ہو سکتا، آج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ اسمبلی میں ناموس رسالت کا بل پیش کریں گے۔

واضح رہے کہ 2020ء میں فرانس کی حکومت کی سرپرستی میں خاتم الانبیاء، محسن انسانیت، سیدنا محمد مصطفی ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت ہوئی کہ جس کے خلاف پوری مسلم دنیا میں سخت اور شدید ردعمل دیکھا گیا تھا، تحریک لبیک نے بھی اپنے مرحوم قائد مولانا خادم حسین رضوی کی رہنمائی میں راولپنڈی، اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا تھا، حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔

تحریک لبیک کا مطالبہ تھا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی ہٹ دھرمی کا کم از کم جواب یہ ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیا جائے، اس بارے میں طے کیا گیا تھا کہ حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے متعلق فیصلہ پارلیمنٹ میں کرے گی اور 3 ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں قرار داد پیش کی جائے گی اور حکومت پابند تھی کہ اس مسئلے کو 20 اپریل تک پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔

تحریک لبیک کی قیادت نے خبردار کیا تھا کہ حکومت نے وعدے کے مطابق 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کیا تو احتجاج دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔ اس بارے میں ایک ماہ سے حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات جاری تھے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی دباؤ کی وجہ سے حکومت اپنے کیے گئے معاہدے سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے، یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی صفوں میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں کہ جو اس حساس مسئلے کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے تحریک لبیک کے سربراہ کی گرفتاری کروا کے غیر ضروری طور پر امن وامان کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔

اس احتجاج میں تشدد کا عنصر داخل ہونے کی ذمہ داری سے حکومت بری نہیں ہو سکتی، حکومت کو معاہدہ کرتے وقت سوچنا چاہیے تھا کہ جو باتیں مان رہی ہے، کیا اس پر عمل کرنے کی اہلیت و صلاحیت بھی رکھتی ہے، ملک میں کبھی جبر و استبداد اور طاقت کے استعمال سے امن و امان قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

حکومت تحریک لبیک پر پابندی تو لگانے جا رہی ہے، لیکن اس پر غور نہیں کر رہی ہے کہ ملک میں امن و امان بگڑنے کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس کے اسباب کا تعین کر کے انہیں دور کیا جاتا ہے، اس کے بجائے احتجاج کرنے والے فریق کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جا رہا ہے، یہ مسئلہ کسی تنظیم کے کالعدم قرار دینے سے حل نہیں ہو گا، ماضی میں بھی بہت سی کالعدم کی جانے والی تنظیمیں دوسرے ناموں سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس مذیبی تنظیم کو بھی کالعدم قرار دینے سے شایدکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ جب تک سیاسی پارٹیوں کے مفادات مذہبی جماعتوں کے ساتھ جڑے ہیں، انہیں کالعدم کرنے سے غیر فعال نہیں کیا جا سکتا ہے، تاہم ارکان تنظیم کے لئے غور طلب بات ضرور ہونی چاہیے کہ احتجاج کے نام پر دونوں جانب سے تشدت کا شکار ہونے والے مسلمان بھائی بھی ناموس رسالت ہی کے داعی ہیں۔

ناموس رسالت کا معاملہ ہمارے ایمان کا جزو لاینفک ہے، یہ صرف تحریک لبیک یا شیخ رشید ہی کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر مسلمان اس پر جان نثار کرنے کو بے تاب رہتا ہے، ماضی میں بھی جب مختلف ممالک میں ایسے واقعات ہوئے تو سب نے احتجاج کیا، سفارت خانے کو احتجاجی یادداشتیں پیش کی گئیں، علامتی دھرنے بھی دیے گئے، لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے ہی گھر کو جلانا شروع کر دیا جائے، اپنے ہی بیماروں کو ہسپتال نہ پہنچنے دیا جائے اور اپنے ہی لوگوں کو بچوں اور فیملی سمیت سڑکوں پر ذلیل و خوار کیا جائے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو اپنی فتح و شکست کا مسئلہ نہ بنایا جائے، بلکہ قابل عمل حل کی جانب بڑھا جائے، حکومت پابندی ضرور لگائے مگر اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنا چاہیے، اس طرح گرفتاریوں، چھاپوں اور پابندیوں سے امن و امان خراب ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے، بلاشبہ ریاست معاملات کو ہجوم کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی اور نہ ہی پر تشدد احتجاج سے ریاست کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے، تاہم امید کی جانی چاہیے کہ دونوں طرف سے معاملے کو مزید الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوئی قابل عمل تدبیر ڈھونڈ لی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments