خواجہ سرا میڈم بوٹا بھی دنیا سے رخصت ہوا


تین سال قبل جب خواجہ سرا میڈم بوٹا نے PP 78 جھنگ سے ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو خاکسار اپنے چند دوستوں کے ساتھ ان کا حوصلہ بڑھانے پہنچ گیا تھا اور اب ایک محترم دوست نے خبر دی کہ پرسوں میڈم بوٹا کا انتقال ہو گیا ہے۔

یہ خبر اس لحاظ سے بھی افسوس ناک ہے کہ بطور خواجہ سرا میڈم بوٹا کی زندگی بہت سے مسائل، پریشانیوں، تکلیفوں، الجھنوں اور عذابوں سے گزرتے دیکھی اور محسوس کی جاتی رہی ہے۔ خاکسار اپنے بچپن سے میڈم بوٹا کو زندگی کرنے کی جدوجہد میں مسلسل محنت و مشقت کرتے دیکھتا آیا ہے۔

اس کی زندگی ایک عام انسان سے یکسر مختلف گزری اور گزشتہ چند سالوں سے وہ صحت کے کچھ مسائل سے بھی نبردآزما تھا لیکن خوبصورت بات یہ رہی کہ وہ انا پرست بھی تھا ، خوددار بھی کمال کا کہ اس پر جوانی ٹوٹ کر برسی تھی اور کبھی جھنگ شہر کے دل پھینک اور شوقین مزاج اس کے گرد پروانوں اور دیوانوں کی طرح منڈلایا کرتے تھے اور وہ اپنی اہمیت سے واقف انہیں ”نو لفٹ“ کا ٹیگ ماتھے پر لگا کر ملا کرتا تھا اور اس کے رکھ رکھاؤ کا بھی ایک عالم معترف تھا۔

خاکسار کے شہر جھنگ میں کبھی میڈم بوٹا کا نام مخصوص طرز کے فنکشنز میں سب سے نمایاں ہوا کرتا تھا اور کسی گھر میں بچے کی ولادت، شادی بیاہ یا ایسے ہی خوشی کے فنکشنز میں اس کے بغیر بات نہ بنتی تھی۔ وہ رونق محفل تھا، خوش مزاجی، خوش ادائی اور خوش نوائی کے کمالات سے لیس وہ ایسا فنکار تھا کہ اس کی آمد ہی سب کے دلوں کی دھڑکن تیز کر دیتی تھی۔ وہ کوئی عام فنکار نہ تھا بلکہ اس کے اندر بہت سی خوبیاں تھیں اور سب سے بڑی خوبی اس کا انسان دوست ہونا کہی جاتی تھی۔

خاکسار کو یاد آ رہا ہے کہ ایک بار وہ ہمارے علاقے کے ایک گھر میں بغیر دستک دیے داخل ہو گئے، یہ پہلی بار نہ ہوا تھا وہ علاقے کے سب گھروں میں ایک دو بار دستک دے کر داخل ہو جاتے تھے اور کوئی بھی برا نہ مناتا تھا لیکن اس روز جس گھر میں وہ داخل ہوئے وہاں ایک سخت گیر سے مہمان آئے ہوئے تھے اور انہوں نے بوٹا اور دیگر خواجہ سراؤں کو تھپڑ مار کر گھر سے نکال دیا لیکن وہ مسلسل دعائیں دیتے رہے۔

اس گھر کے سخت گیر مہمان کا غصہ بڑھتا رہا اور خواجہ سرا صبر و تحمل کا پیکر بنے کھڑے رہے اور تب اہل محلہ نے اس مہمان کو لعن طعن کی اور دست درازیوں سے روکا اور پھر گھر کا مالک آ گیا اور اس نے سب کے سامنے خواجہ سرا سے معافی مانگی اور عجیب معاملہ یہ ہوا کہ جس بچے کی خوشی منانے وہ خواجہ سرا پہنچے تھے بعد میں وہ بچہ بھی نہ رہا اور تب یہ صدیوں سے چلی بات سچ ثابت ہو گئی کہ

”خواجہ سرا کی بد دعا سے ڈرنا چاہیے“

اللہ جانے کن لمحوں کسی مار کھاتے خواجہ سرا کے منہ سے بے اختیار بد دعا نکل گئی ہو؟

بہرحال اہل جھنگ اس کردار سے ایسے آشنا تھے کہ ایک وقت الیکشن آیا تو میڈم بوٹا نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ PP 78 سے بطور امیدوار کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ بات عام اور روایتی سیاست دانوں کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ میڈم بوٹا کو بھی روکا گیا لیکن وہ ثابت قدم رہا اور تب خاکسار  نے روایت شکن ماحول کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے چند دوستوں کے ساتھ اس باہمت اور منفرد کردار کے کندھے سے کندھا جوڑ کر اس کا حوصلہ بڑھایا اور ڈٹے رہنے کی تلقین کی اور میڈم بوٹا بھی اپنے وعدے پر قائم رہا۔

بدقسمتی سے وہ الیکشن میں کامیاب تو نہ ہو سکا لیکن اس نے اذیت کے لمحوں میں خوشی کشید کرنے کا جتن خوب کیا اور اپنی برادری کے نہ صرف حوصلے بلند کرنے کی زبردست کاوش کی بلکہ پوری دنیا میں اپنا نام بھی پیدا کیا اور خاکسار نے مشہور اردو ویب سائٹ ”ہم سب“ پر اس حوالے سے ایک کالم بھی لکھا ، جسے احباب نے بہت پسند کیا اور خوب داد سے نوازا۔

آج وہ شاندار، مہذب، منفرد اور رونقی کردار اس دنیا میں نہ رہا ہے تو اللہ سے بس اتنی سی دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب پاکﷺ کے صدقے اس کے اگلے معاملات آسان کرے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments