لبیک کا سفر یتیم خانے پر ختم نہیں ہو گا


لبیک کا فیض آباد سے شروع ہونے والا سفر اس وقت یتیم خانے تک پہنچ چکا ہے اور جھڑپیں جاری ہیں۔ ایک وقت میں حکومت کو اس کے خلاف کارروائی کرنے سے روکا جاتا تھا اور معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا تھا۔ اس کی سرپرستی کی جاتی تھی اور حکومتی پولیس کو مار کھانے کی مشق کروائی جاتی تھی۔ پھر موسم بدلا، رت گدرائی اور اہل جنوں بے باک ہوئے۔ انہیں خیال ہی نہیں رہا کہ اب نواز شریف یا آصف زرداری کا دور نہیں ہے۔ سر پر جو ہاتھ رکھا گیا تھا اب وہ نہیں رہا اور نتیجتاً تحریک لبیک کا دھرنا فیض آباد سے یتیم خانے پہنچ گیا۔ ایک وقت میں فیض آباد چوک پر اہل ثروت سے لاکھوں روپے کے ہدیہ جات اور ہزار ہزار روپے کا زاد راہ وصول کر کے واپس لوٹنے والے اب ریاستی طاقت کا سامنا کر رہے ہیں۔

لیکن آصف علی زرداری اور نواز شریف کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا نتیجہ اب ہماری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اور شاید ایک دو نسل تک بھگتنا پڑے گا۔ دیوبندی انتہا پسندی کے فتنے کو کنٹرول کرنا آسان تھا۔ ادھر مولانا فضل الرحمان کی با اثر جماعت ریاست کے ساتھ کھڑی تھی۔ تحریک لبیک کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کا سفر یتیم خانے پر ختم نہیں ہو گا۔ بریلوی انتہا پسندی کو کچلنا ناممکن حد تک مشکل امر ہو گا۔

یہاں کسی بھی جگہ سے ایک شخص ابھرے گا جو سلمان تاثیر والے ممتاز قادری یا اندرا گاندھی والے بے انت سنگھ جیسا ایک قابل اعتماد محافظ ہو گا، جو کسی تنظیم کے حکم پر نہیں بلکہ اپنے دل کے فیصلے پر گولی چلانے پر آمادہ ہو گا۔ اب بھی عقل سے کام نہ لیا گیا تو ہم انارکی کی طرف سفر شروع کر چکے ہیں۔ یہاں افغانستان اور صومالیہ کی طرح کے وار لارڈ ہی دکھائی دیں گے۔

بظاہر افہام و تفہیم کی گنجائش موجود نہیں۔ ہمارے عوام کے جذبات جو بھی ہوں، ریاست چلانے والے جانتے ہیں کہ یورپی یونین اور مغرب سے تعلق توڑ کر پاکستان کو چلانا بہت مشکل ہے۔ ہم فیٹف کی بلیک لسٹ سے خوفزدہ ہوئے بیٹھے ہیں، اگر ہمارے اوپر اصلی والی اقتصادی پابندیاں لگ گئیں تو انقلابی ایران اور صدام حسین کے عراق سے برا حال ہو گا۔ لبیک والے اس مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ فرانس کے سفیر کو نکالا جائے۔ حکومت جس طرح ہر نازک موقعے کو جھوٹا سچا معاہدہ کر کے ٹالتی آئی ہے، وہ سلسلہ ایک وقت میں ختم ہونا ہی تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ حکومتی اداروں کو گیمز آف تھرونز دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے طاقت کے استعمال کے بغیر بھی بڑے دشمن سے معاملہ طے کر لیا جاتا ہے۔ جس دشمن کو جنگ کے میدان میں ہرانا ممکن نہ ہو اسے تو شادی کے ذریعے بھی ہرا دیا جاتا تھا۔ بہرحال ہم ”لس کے آنسو“ نامی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مرکب کے استعمال کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے۔ گیم آف تھرونز کے مطابق یہ بہادر مردوں کا نہیں بلکہ کمزور عورتوں، مخنثوں اور بزدلوں کا ہتھیار ہوتا ہے۔ کرونا کے دنوں میں اس کی ویسے بھی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔

یا پھر مقتدر طبقات ”ارتھ شاستر“ یا ”دی پرنس“ ہی پڑھ لیں۔ راج نیتی میں یہ کتابیں صدیوں سے مفید مانی جاتی آئی ہیں۔ اور ہماری رائے میں سیاست دان اس کے ماہر ہوتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے راج نیتی سے کئی الجھے معاملات سیدھے کیے تھے۔ عوام سے صرف سیاست دان ڈیل کر سکتا ہے۔ اگر حکمران سیاست دان نہ ہوں تو پھر جو ہوتا ہے وہ ہم 1971 میں دیکھ چکے ہیں۔ سیاست دان کی ساری زندگی عوام میں گزرتی ہے۔ وہ عوامی مزاج سمجھتا ہے۔ اور مذاکرات میں ایسی ڈیل پر سب کو راضی کر لیتا ہے جس میں سب کو اپنا فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ یعنی گاڈ فادر فارمولا استعمال کیا جاتا ہے کہ ”میں اسے ایسی آفر کروں گا جو وہ ٹھکرا نہیں پائے گا“ ۔

یہ بھی سچ ہے کہ یہ طریقے عموماً وقتی بلا کو تو سر سے ٹال سکتے ہیں لیکن ایک سوچ کو ختم نہیں کر سکتے۔ سوچ کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سیاست میں مذہبی عنصر کو ممنوع کرنا پڑے گا۔ بنگلہ دیش نے تو اپنی مرضی سے مذہب کو سیاست سے الگ کیا، ہمیں اپنی بقا کے لیے کرنا ہو گا۔ نصاب سے نفرت کے اسباق کو نکالنا ہو گا اور اساتذہ کو منفیت کی بجائے مثبت سوچ کی تعلیم دینے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اور ایسا کرنے والے حکمرانوں کو شاید اپنے وطن کے لئے اپنی جان کی قربانی بھی دینا پڑے۔

گیم آف تھرونز کے علاوہ برٹش راج کا سسٹم بھی لاجواب تھا۔ ان کے پاس بھی چند جزیرے کالا پانی نامی سمندر میں ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔ کوئی زیادہ پریشان کن باغی ہوتا تو وہاں بھیج دیا کرتے تھے۔ وگرنہ اگر صرف معمولی سبق سکھانا مقصود ہوتا تو شرپسند کو گرمیاں گزارنے کے لیے مچھ جیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔ ایک اور بھی طریقہ تھا کہ جس شخص کی موت کے بعد فتنے کا اندیشہ ہوتا اسے یا تو جیل میں دفن کیا جاتا یا پھر سرکار کسی نامعلوم مقام پر تدفین کر دیا کرتی تھی۔

خیر انگریز ان معاملات میں عقل مند تھے، وہ چلے گئے اور اب پیچھے جو رہ گئے ہیں ان سے دانش کی امید کم ہی ہے۔ بدقسمتی سے وہ ہمارے جیسا دماغ رکھتے ہیں کہ جہاں ڈنڈے سے کام چلتا ہو ادھر ڈنڈے سے چلاتے ہیں، اور جہاں عقل سے کام چلانے کی ضرورت ہو ادھر بھی ڈنڈے سے کام چلاتے ہیں اور پھر پریشان ہوئے پھرتے ہیں۔ بہرحال ایک مرتبہ ڈنڈا چلانا شروع کر دیا جائے تو معاملہ اختتام تک لے جانا پڑتا ہے ورنہ وہی ڈنڈا خود اپنا نصیب بن جاتا ہے۔

دانش مند حکمران جانتے ہیں کہ حالات کو اس نہج تک نہیں لے جانا چاہیے جہاں اپنے شہریوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑے۔ ان کے پاس طاقت ہوتی ہے تو اسے استعمال کرنے کا ضبط اور سلیقہ بھی ہونا چاہیے۔ شام  میں خانہ جنگی محض چند بچوں کی وال چاکنگ کے خلاف حکومتی ردعمل سے شروع ہوئی تھی۔ اور لال مسجد بھی اتنا پرانا واقعہ نہیں جہاں سیاست کی  بجائے طاقت کا استعمال ہوا تھا اور پھر ستر ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments