معاشرتی رویوں کا عکاس سوشل میڈیا


ایک وقت تھا جب کسی موضوع یا واقعہ کے بارے میں معاشرے کی اکثریتی یا اجتماعی رائے جاننا ایک مشقت طلب کام تھا۔ آپ کو مختلف پیشے، طبقات اور عمر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رابطہ کرنا پڑنا تھا اور ان کی آراء کو الگ الگ پرکھنے کے بعد ایک حتمی نتیجہ مرتب کرنا پڑتا تھا مگر آج کے دور میں سائنسی ترقی نے جہاں اور بہت سے کاموں میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں انٹرنیٹ نے مختلف معاشرتی رویوں اور سوچ بارے تحقیق کے عمل کو بھی بہت آسان کر دیا ہے۔

کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آنے کی خبر اسی لمحے انٹرنیٹ کی بدولت پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کی ترسیل میں آسانی جہاں لوگوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا سے باخبر رکھتی ہیں وہیں لوگوں کو، مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، پیش آئے واقعہ پر اپنی آراء کا اظہار کرنے کی سہولت بھی مہیا کرتی ہے۔ کسی مخصوص خبر پر لوگوں کے تبصرے اور بحث و مباحثہ کے لئے دیے گئے دلائل ان کے معاشرے میں اس موضوع کے متعلق غالب رویوں کو عیاں کرتے ہیں اور ان رویوں کو پرکھ کر اس معاشرے کی موجودہ عمومی فکر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی فراہم کردہ اس سہولت کا پاکستان کے تناظر میں جائزہ لیں تو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی مکروہ پہلو اجاگر ہوتا ہے۔ لوگ رائے دینے کی آزادی کو اخلاقیات سے بھی آزادی تصور کرنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی سوچ سے مخالف سوچ رکھنے والوں کو جاہل اور گمراہ جیسے خطابات سے نوازتے ہوئے گالم گلوچ معمول کا رویہ بنتا جا رہا ہے۔

مذہبی اور سیاسی سطح پر عدم برداشت کا ایسا رویہ پروان چڑھ چکا ہے کہ نوجوان تو نوجوان، ادھیڑ عمر لوگ بھی اپنے سے مخالف سیاسی سوچ رکھنے والوں کو گالی دینے کو ہی دلیل سمجھنے لگے ہیں۔ چہروں پر داڑھی سجائے یا اللہ/نبی کے نام کی تصویر لگے پروفائل سے لوگ گالیاں دے کر مذہبی نفرت کا اظہار کرنے کو دین سے محبت جتلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک اپنے معاشرے کا مغرب سے موازنہ کرتے وقت اس بات پر بہت زعم کیا جاتا تھا کہ مغرب کے مقابلہ میں ہمارے معاشرے میں احساس زندہ ہے مگر اب عدم برداشت کے ساتھ ساتھ بے حسی بھی ہمارے معاشرے میں عام ہونے لگی ہے۔ فیس بک پر مختلف نیوز چینلز کے پیجز پر شائع ہونے والی بہت سی خبروں پر ہونے والے تبصرے اس رویہ کے بہترین عکاس ہیں۔

کسی خواجہ سرا کے ساتھ زیادتی کی خبر، سیلفی لیتے یا ویڈیو بناتے کسی کے جان سے گزر جانے کی خبر، کسی سیاسی راہنما کی بیماری یا موت کی خبر، ناکام عشق پر کیا گیا قتل، میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی کسی عورت کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کی خبر یا پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر چار افراد کے لرزہ خیز قتل جیسی کسی خبر پر لوگوں کے لافنگ ری ایکٹس اور ٹھٹھہ اڑاتے تبصرے بے حسی کا پروان چڑھتا بھیانک معاشرتی رویہ اجاگر کرتے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ قتل، موت، زیادتی یا ایسے کسی بھی عمل کے پیچھے کیا محرکات تھے، ان کی اپنی غلطی تھی یا وہ کسی کی غلطی کی بھینٹ چڑھ گئے، اگر آپ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کر سکتے تو اس بات کو نظر انداز کر دیں مگر ایسے تبصرے کرنے سے تو گریز کریں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو۔

پب جی والی خبر کا حوالہ اس لئے دیا کیونکہ یہ وہ تازہ ترین خبر تھی جس پر تبصرے کرتے وقت لوگ یہ بات بھول گئے کہ پب جی سے زیادہ اہم بات اس خبر میں چار لوگوں کی موت تھی مگر لوگوں کے لئے یہ کسی کی موت کی خبر نہیں بلکہ تفریح کا سامان تھا۔ اگر کسی کو یہ لگتا بھی ہے کہ میڈیا نے جھوٹ بول کر اس خبر کو پب جی کے ساتھ جوڑا تب بھی یہ بات آپ کو اس خبر کا ٹھٹھہ اڑانے کا کوئی جواز نہیں دیتی کیونکہ اس خبر کا دوسرا پہلو کسی کی زندگی کا افسوس ناک خاتمہ تھا۔ پولیس تفتیش اس بات سے تو پردہ اٹھا دے گی کہ اس خبر کا پب جی سے کوئی تعلق تھا یا نہیں مگر اس خبر پر کیے گئے تبصروں سے مقتولین کے عزیز و اقربا کے مجروح ہوئے جذبات کا ازالہ کون اور کیسے کرے گا؟

ایک یہ احساس ہی ہے جو انسان کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ اگر معاشرے میں احساس بھی ناپید ہو گیا تو جنگل میں بسے موقع پرست جانوروں اور انسانی بستیوں میں بسے بے حس انسانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ اللہ سب کو آزمائشوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے مگر جو آج کسی پر بیت رہی ہے وہ کل کو آپ پر بھی بیت سکتی ہے۔ اس لیے دوسروں کی تکلیفوں پر ویسا ہی ردعمل دیں جیسا ردعمل آپ کسی سانحہ کی صورت میں اپنی ذات سے لئے بھی قبول کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments