دوست، سیاست اور جہانگیر ترین


حکایات سعدی کے چرچے تو پوری دنیا میں ہیں ، ایک دن کسی نے شیخ سعدی سے پوچھا، دوست اور بھائی میں کیا فرق ہے تو انہوں نے لب کشائی کی، بھائی سونا ہوتا ہے اور دوست ہیرا۔ پوچھنے والے کو سمجھ نہ آئی تو وضاحت پوچھی، سعدی شیرازی نے جواب دیا کہ سونا اگر ٹوٹ جائے تو اسے جوڑا جا سکتا ہے مگر ہیرے کو دوبارہ بنانا مشکل ہے۔

سیاست جاننے والے کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا جبکہ سیاسیات کے استاد میکاولی کا یہ کہنا ہے کہ سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔

پاکستانی تجربہ کار سیاست دانوں کے دو فرمودات تو بہت مشہور ہیں ایک سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں، دوسرے فرمان کے طور پر کہا جاتا ہے کہ سیاست میں دروازے کھلے رکھنے چاہیں۔

سیاست ایک گرداب ہے ساحل سے بہت دور، گرداب میں اپنے پرائے کی کہاں سمجھ آتی ہے، پتہ نہیں کون سہارا بن کر ساحل پر لے آئے اور پتہ نہیں کون دریا کی لہروں کے سپرد کر دے، پرانا یارانہ کب دشمنی کی شکل ڈھال لے اور کب دوست پیٹھ میں خنجر گھونپ دے، سیاست میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست ایک ایسا بھنور ہے جس کے چکر میں سیاست دان ہچکولے کھاتے رہتے ہیں مگر منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ کل کے حریف، حلیف بن جاتے ہیں اور مفادات کی خاطر جانی دشمن بن جاتے ہیں۔

ہمارے یہاں سیاست مفادات کا کھیل ہے، کون نہیں جانتا کہ بڑے مذہبی تصور کیے جانے والے اورنگزیب عالمگیر نے اپنا تخت بھائیوں کی لاشوں پر سجایا تھا۔ برصغیر میں تو نگہبانوں کے ہاتھوں بھی قتل ہونے کا رواج ہے۔ پتہ نہیں کب حفاظتی دستہ موت کا سندیسہ لے آئے۔

قارئین کرام! ہماری سیاسی تاریخ ایسے کئی کرداروں سے بھری پڑی ہے جو کبھی قریبی دوست تھے، ہواؤں کے رخ پر آنکھیں بدل گئے، گجرات کے چوہدری اور لال حویلی کے شیخ رشید کبھی نواز شریف کے سنگی تھے پھر سنگ برسانے والوں میں شامل ہو گئے، لیکن جواب شکوہ کے طور پر وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے نواز شریف کو نہیں چھوڑا تھا بلکہ وہ ہمیں چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے تھے۔ کبھی آصف علی زرداری اور ذوالفقار مرزا کا یارانہ بہت مشہور تھا۔

ایم کیو ایم کے بانی قائد کو بھائی کہنے والے ذرا سی دیر میں برادران یوسف ثابت ہوئے، مصطفی کمال نے تو الگ پارٹی ہی بنا ڈالی۔ اقتدار کا کھیل کیسے کیسے فاصلے ختم کرتا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کو دریا کے دو کنارے سمجھا جاتا تھا مگر وہ اقتدار کے کھیل میں ایسے ملے جیسے مظفرآباد میں دو دریا ملتے ہیں، چوہدری برادران کا ویسا ہی معاملہ اب عمران خان کے ساتھ ہے۔ شیخ اور عمران دونوں ہی جملے بازی میں مہارت رکھتے ہیں۔

شیخ صاحب تو شاید دو ہاتھ آگے ہوں، اقتدار کی سیاست نے دونوں کو یکجا کر دیا، سارے طعنے ختم، تمام شکوے تمام ہوئے۔ کل تک طنز کے تیر برسانے والے آج ایک دوسرے کے مداح ہیں، ویسے تو اس سلسلے میں رانا ثناء اللہ کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن چھوڑیے صاحب پھر جاوید ہاشمی کا تذکرہ بھی آئے گا۔ ہماری سیاست میں دوستیاں صحرائی ہواؤں کی طرح ہوتی ہیں، کبھی سرد کبھی لو برساتی ہوئی اور کبھی دھول اڑاتی ہوئی۔ جی ہاں! سیاست میں کوئی دوست اور دشمن سدا بہار نہیں ہوتا۔

آج کل ہر محفل میں جہانگیر ترین موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں، ایک پولیس افسر کے صاحبزادے، ایک سیاسی خاندان کے داماد اور قائداعظم یونیورسٹی کے سابق استاد ایسے کھیل میں آ گئے جہاں ان سے بھی بڑے استاد بیٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین نے ابتدا میاں شہباز شریف کی مشاورت سے کی اور نئی صدی میں نئے سیاسی لباس کے ساتھ داخل ہوئے اور مشرف حکومت کا حصہ بن گئے، وہ ایک کاروباری آدمی ہیں، پورا ٹیکس دیتے ہیں، سائنسی بنیادوں پر کاروبار کرتے ہیں، 2008 کا الیکشن ہوا تو محترمہ کی شہادت اور لال مسجد ق لیگ کی سیاست کو کھا گئی۔

آمرانہ دور میں اکٹھی کی گئی یہ پارٹی تنکوں کی طرح بکھر گئی، سیاسی کھلاڑی نئی منزل کی تلاش میں لگ گئے، راستہ انھیں عمران خان کے سرکس میں لے آیا، اس سیاسی سرکس میں مختلف پارٹیوں سے لوگ شامل ہوئے۔ 2011 کے جلسے کے بعد پی ٹی آئی کا سٹیڈیم بھرنے لگا، اب سیاست کے کھیل میں جہانگیر ترین نمایاں کھلاڑی کے طور پر شامل ہوئے ، وہ کپتان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی بن گئے ، انھوں نے پارٹی کے لئے دولت کے دروازے کھول دیے۔ خان صاحب جہانگیر ترین کے طیارے پر گھومتے تھے، ان کے اخراجات پر چلتے تھے ، کیا تب جے کے ٹی شوگر مافیا کا حصہ نہیں تھا؟

مگر جیسے ہی سیاسی شطرنج پر کھیل بدلا، مہروں کی چالیں تبدیل ہوئیں اور جہانگیر ترین خان سسٹم سے آؤٹ ہوئے تو خان صاحب نے آنکھیں بدل لیں۔ 2018 کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو حکومت ملی تو جہانگیر ترین نااہل ہونے کے باوجود عمران خان کے قریب تھے یہاں تک انھیں ”ڈی فیکٹو“ وزیراعظم تصور کیا جاتا تھا۔ پارٹی کے اراکین کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ جہانگیر ترین کی قربت حاصل کی جائے۔ مگر حاکم کے حواری ترین فیکٹر کا سدباب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور چینی کمیشن کے بعد ترین صاحب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اب میرے خان صاحب کے ساتھ وہ تعلقات نہیں ہیں جو پہلے تھے۔

جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر تین ارب کے شیئرز غیر ملکی کمپنی میں منتقل کیے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق جے کے ٹی اور ان کے فرزند پر 2013 / 14 کے دوران جے کے فارمنگ سسٹم لمٹیڈ کمپنی کے دھوکہ دہی اور فراڈ سے چار ارب اور پینتیس کروڑ کی منی لانڈرنگ پر پی پی سی کے 406، 420، 109 سیکشنز کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی اے کے ایک اور نوٹس میں جہانگیر ترین کو فارمز کی تمام مشینری کی رسیدیں، پینتیس ہزار ایکڑ کے رقبے کے ثبوت، بینک کی رپورٹ، مشینری اور پینتیس ہزار ایکڑ رقبے کی تخمینہ رپورٹ، برطانیہ میں خریدی گئی جائیدادوں کی منی ٹریل جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے، جہانگیر ترین خان نے اپنے اوپر تمام مقدمات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا اور اپنے خلاف کارروائی کو ایک سازش اور مہم کا نام دیا۔ جہانگیر ترین ایک عاجز انسان ہیں، دولت اور شہرت ہو تو انسان میں غرور اور تکبر آ ہی جاتا ہے مگر ان میں ایسی خصلت نہیں ہے وہ دوستوں کے دوست ہیں اور سیاست میں انھوں نے صرف دوست ہی بنائے ہیں۔

وہ اپنی تحریک انصاف سے انصاف کے متمنی ہیں، چینی کمیشن کیس میں جہانگیر ترین خان نے 22 اپریل تک ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ ایف آئی اے اور جے کے ٹی کر درمیان تفتیش کا کھیل جاری ہے، اگر جہانگیر ترین کو ایف آئی اے کی جانب سے انصاف نہ ملا تو وہ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنی پیشی پر پارٹی اراکین کے ساتھ جو پاور شو کیا اس کے پیچھے وہی محرکات ہیں جو سسٹم چلا رہے ہیں میرے خیال میں یہ محض منہ کی باتیں ہیں۔

دوسری طرف عمران خان کے وزیر مشیر، ان کو اس بات پر قائل کر چکے ہیں کہ ترین آپ کو بلیک میل کر رہے ہیں جس پر دیرینہ دوست نا خوش ہیں۔ اور جب بادشاہ نا خوش ہوتا ہے تو دوستی بھول جاتا ہے۔ بہرحال آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہانگیر ترین اپنے گھر کی بیسمنٹ میں خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اپنا اگلا سیاسی لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ ہواؤں کا رخ کبھی بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ کل کے مخالف، دوست اور آج کے دوست مخالف بم سکتے ہیں۔ ستر سالوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے اور یہی ہماری سیاست ہے۔

دوستو! کالم کے شروع میں عرض کی تھی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست صرف مفادات کا نام ہے جس کو جہاں سے مفاد ملتا ہے وہ اسی کے گن گاتا ہے۔ عمران خان نے ترین کے ساتھ وہی کیا جو ماجد خان کے ساتھ کیا تھا ، ایسے میں جہانگیر ترین کا یہ کہنا کہ میں تو دوست تھا ، ہماری چومکھی سیاست میں دیوانے کے خواب جیسی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments