مغرب توہین رسالت پر معافی مانگے


ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے بعد عمران خان مسلم دنیا کے دوسرے حکمران ہیں کہ جنہوں نے توہین رسالت کے مسئلے پر کھل کر اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے، ورنہ مسلم دنیا کے اکثر حکمران اس مسئلے پر خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی دنیا کے انتہا پسند توہین رسالت پر مسلمانوں سے معافی مانگیں، رسول اکرم ﷺ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، ان کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے، ہولو کاسٹ کی طرح توہین رسالت پر بھی سزا مقرر کی جائے، مغرب کے لیے توہین رسالت کبھی عادت تھی، مگر مغرب نے اسے اب اپنا کھیل ہی بنا لیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح طور پر دنیا کو خبردار کیا ہے کہ حضورنبی کریمﷺ  امت مسلمہ کے دلوں میں بستے ہیں، بیرون ملک انتہاپسند ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، جو ناقابل برداشت ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست نشان دہی کی ہے کہ حضور اکرمﷺ تمام مسلمانوں کے دلوں میں بستے ہیں، لیکن انتہا پسند مغربی سیاست دان آزادیٔ اظہار کے نام پر پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کے اقدامات کی حمایت کر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، آزادیٔ اظہار کی آڑ میں توہین رسالت ﷺ کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ہولو کاسٹ کی طرح رسول پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم کا مطالبہ جائز اور معقول ہونا بالکل واضح ہے، اس مطالبے کو منوانے کے لئے تمام مسلم حکومتوں کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ شان رسالت مآب ﷺ ﷺ کی گستاخی کے منظم سلسلے کے پیچھے کار فرما، اصل سازشی منصوبے کا مؤثر توڑ بھی انتہائی ضروری ہے۔

امت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو رسول اکرم ﷺ سے غایت درجے کی عقیدت عطا کر رکھی ہے، اس لیے کمزور سے کمزور مسلمان بھی رسول اکرم ﷺ  کی حرمت پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے، ایک مسلمان توہین رسالت پر جان دے سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلمان رسول اکرم ﷺ سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر اپنی محبت کے دعوے کو سچا ثابت نہیں کر پا رہے ہیں۔

ایک مسلمان کے لئے جس طرح عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے، اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع رسولﷺ ہے اور مسلمان اتباع رسولﷺمیں کوتاہی کا شکار نظر آتے ہیں، اسی لیے مغرب کے انتہا پسند شان رسالت مآب ﷺ  میں گستاخی کی جرأت کر رہے ہیں، امت مسلمہ کا اتحاد ہی اہل مغرب کے انتہا پسندوں کو توہین رسالت پر معافی مانگنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

دنیا کو حرمت رسولﷺ سے روشناس کروانا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اس کے لیے آگاہی مہم کے ساتھ احتجاج ریکارڈ کروانا بھی ضروری ہے، لیکن احتجاج کی آڑ میں حکومت مخالف ایجنڈے کی تکمیل یا ریاست کو چیلنج کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ حرمت رسولﷺ پر تحریک لبیک کے احتجاج پر کسی کو اعتراض نہیں، مگر ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی درست نہیں۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے خلاف کارروائی اور فوری پابندی کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔

تحریک لبیک پر پابندی کے فیصلے پر وزیراعظم نے صراحت کی کہ اس کی جانب سے ریاست کی عمل داری کو للکارے جانے اور گلی کوچوں میں فساد برپا کیے جانے کی بناء پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت یہ قدم اٹھانا ضروری ہو گیا تھا، جبکہ تحریک لبیک کی قیادت کا کہنا ہے کہ حکومت نے معاہدے سے انحراف کیا ہے، تحریک لبیک کا حالیہ احتجاج معاہدے پر عمل درآمد کے لئے تھا، لیکن بظاہر دو طرفہ غلطیوں کے باعث لاقانونیت میں بدل گیا اور حکومت کو تحریک لبیک خلاف کارروائی کے ساتھ پابندی لگانا پڑی ہے۔

یہ اقدام آئینی و قانونی طور پر کتنا درست ہے، اس پر ماہرین قانون کی مختلف آراء ہو سکتی ہیں، تاہم جہاں تک مغربی دنیا سے وزیراعظم کے مطالبے کا تعلق ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کو اسی طرح ممنوع اور قابل سزا قرار دیا جائے کہ جیسے ہولو کاسٹ کے خلاف لب کشائی کو قرار دیا گیا ہے تو اس کا جائز اور معقول ہونا بالکل واضح ہے اور تمام مسلم حکومتوں کو اس مطالبے کو منوانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔

اس کے ساتھ شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کے منظم سلسلے کے پیچھے کار فرما اصل سازشی منصوبے کا مؤثر توڑ بھی ضروری ہے، یورپ میں زور شور سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب سے شدید خطرہ ہے، اسے تبدیل کرنے کے لیے جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں، وہیں ایک منصوبے کے تحت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، تاکہ شدید احتجاج پر مسلمانوں کو برداشت سے عاری اور دہشت گرد قرار دیا جا سکے۔

امت مسلمہ کو متحد ہو کر اسلام مخالف قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ سازشی حربوں کا توڑ بھی کرنا ہو گا، اسلام مخالف حربے کا توڑ جھوٹے پروپیگنڈے کے جواب میں اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنا ہے۔ اسلام مخالف پروپیگنڈا ہدف بننے والوں میں ہمیشہ تجسس کا سبب بنتا ہے اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ کر کے اسلام کے نظام عدل کا اسی طرح معترف بنایا جا سکتا ہے کہ جیسے رسول کریم ﷺ نے اپنے خلاف سخت گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار بنائے جانے والوں کے دل جیت کر سرزمین عرب کو اسلام کی روشنی سے منور فرما دیا تھا، یہ امت مسلمہ کے لئے مشکل ضرور ہے، مگر اسے اتباع رسولﷺ سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments