یتیم خانہ چوک میں تصادم: ایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے


حکومت نے لاہور میں رونما ہونے والے واقعات پر خبروں کی ترسیل روکی ہوئی ہے۔ تصادم اور احتجاج کے حوالے سے صرف سرکاری بیانات ہی معلومات کا ’معتبر‘ ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یتیم خانہ چوک میں کالعدم تحریک لبیک کے مرکز کے باہر ہونے والی کارروائی کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ تک کسی کی رسائی نہیں۔ لاہور کے متعدد علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے بھی بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے اور حالات کی تصویر غیر واضح ہے۔

اس دوران سرکاری ذرائع سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کے شرپسندوں نے نواں کوٹ تھانے پر حملہ کر کے ڈی ایس پی اور پانچ پولیس کانسٹیبلز کو اغوا کر لیا اور انہیں اپنے مرکز لے گئے۔ سیکورٹی فورسز نے تھانے کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا ہے لیکن یتیم خانہ چوک میں تحریک لبیک کے مرکز کے باہر دھرنا دینے اور احتجاج کرنے والے کارکنوں کے خلاف کارروائی اتوار کی رات کو روک دی گئی تھی۔ اس کی جزوی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مظاہرین نے کم از کم ایک آئل ٹینکر پر قبضہ کر رکھا ہے جس میں پچاس ہزار لیٹر تیل ہے۔ پولیس کو اندیشہ ہے کہ کسی تصادم کی صورت میں آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے غیر معمولی تباہ کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔

اسی حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک ٹویٹ پیغام میں بتایا ہے کہ شر پسندوں نے ایک ڈی ایس پی سمیت 12 پولیس والوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ بعض دوسرے ذرائع بھی یہ بتا رہے ہیں کہ یرغمال بنائے گئے اہلکاروں کی تعداد پولیس کی بتائی ہوئی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان اطلاعات کے مطابق ان میں رینجرز کے دو جوان بھی شامل ہیں۔ تحریک لبیک کے قبضے میں ڈی ایس پی کی سوشل میڈیا پر عام ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے برعکس میڈیا رپورٹس کے مطابق لبیک تحریک کے ترجمان شفیق امینی کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے صبح آٹھ بجے یتیم خانہ چوک میں تحریک لبیک کے مرکز پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں تحریک کے دو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان دونوں کو اس وقت تک دفن نہیں کیا جائے گا جب تک حکومت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان نہیں کرتی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے آج صبح اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ملک بھر میں احتجاج کے دوران 192 کو مقامات کو بلاک کیا گیا تھا تاہم پولیس نے 191 جگہوں کو صاف کروا لیا ہے البتہ یتیم خانہ چوک میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ ایک ایسے وقت یہ بیان دے رہے تھے جب کہ نامعلوم تعداد میں پولیس و رینجرز کے افسر شر پسندوں کے قبضہ میں تھے، یتیم خانہ چوک میدان جنگ بنا ہوا تھا جہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز آمنے سامنے ہیں۔

نہ جانے پاکستانی حکومت کو کیوں اس بات کا پورا یقین ہے کہ خبروں کی ترسیل روک کر حالات پر موثر طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کے نیوز بلیک آؤٹ سے جھوٹی خبریں پھیلتی ہیں اور عوام میں افواہوں کی بنیاد پر خوف یا اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ملک کا میڈیا بھی سیکورٹی فورسز، بیورو کریسی یا سیاسی حکمرانوں کی طرح قومی مفاد کا حامی ہے اور امن و امان کا خواہاں ہے۔ تاہم پابندیاں عائد کرنے کا چلن اختیار کر کے ایک طرف حکومت اپنی کمزوری ظاہر کرتی ہے تو دوسری طرف اس کے اپنے ترجمان مختلف اور متضاد بیانات دے کر حالات کے بارے میں غلط فہمیوں کو جنم دیتے ہیں۔ معلومات کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والی بے یقینی کسی حکومت کے لئے سود مند نہیں ہو سکتی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ہر حکومت نے اس ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کی غلطی کی ہے۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ پر درست معلومات کی ترسیل روک کر انتہاپسندانہ رجحانات و تشدد کے خلاف رائے سازی کے اہم ترین کام کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

ملکی میڈیا سرکاری معلومات اور وزیروں کے بیانات پر مشتمل خبروں کی بنیاد پر ضرور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن حکومتی پابندیوں کی وجہ سے مجبور و پابند میڈیا کی ساکھ اور اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر صحافیوں کو آزادی سے رپورٹ کرنے اور خبروں کا پس منظر بتانے کی آزادی دی جائے تو عوام تک ان عناصر کے بارے میں قابل اعتبار معلومات پہنچ پائیں گی جو حکومت کے بقول امن و امان خراب کرنے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو خود حالات پرکھنے، ان کا جائزہ لینے اور رائے قائم کرنے کا موقع مل سکے گا۔ جب ریاست اور اس کے اختیار کو استعمال کرنے والی حکومت میڈیا کا بازو مروڑنے کو ہی اہم ترین کامیابی سمجھے گی تو وہ اپنے لئے بے اعتباری اور عدم مقبولیت کا گڑھا کھودنے کا سبب بھی بنے گی۔ عوام اس کی باتوں کی طرح، اس کے اقدامات کو بھی مسترد کریں گے کیوں کہ اعتبار کی بنیاد پر ہی سماج میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ حکومت خود ہی اس بھروسے کو تباہ کرنے کر رہی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ جھوٹی خبریں پھیلانے میں صرف سوشل میڈیا یا عوامی گپ شپ ہی کردار ادا نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات سرکاری ادارے بھی ’خیر‘ کی امید پر غلط خبریں پلانٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے پاکستانی میڈیا کے ذریعے کالعدم تحریک لبیک کے زیر حراست امیر سعد حسین رضوی کا ایک پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نے تنظیم کی شوریٰ کے ارکان سے کہا ہے کہ ’مسجد رحمۃ اللعالمین کے سامنے دھرنا فی الفور ختم کر دیا جائے اور کارکنان فوری طور پر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔ شوریٰ ارکان خود کو قانون کے حوالے کردیں۔ ان کی ضد کی وجہ سے سینکڑوں کارکن اور ہزاروں عوام پچھلے 6 دنوں سے خوار ہو رہے ہیں‘ ۔ اس خبر کے مطابق سعد رضوی نے یہ بھی کہا کہ 20 اپریل کو احتجاج کی کال بھی واپس لے لی جائے۔

موجودہ ہنگامے سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے اور تحریک پر پابندی کے بعد حالات غیرمعمولی طور سے کشیدہ ہو گئے۔ اب یہ گمان کرلینا کہ پولیس کی تحویل میں موجود سعد رضوی نے اپنی مرضی سے یہ بیان جاری کیا ہو گا، قرین قیاس نہیں ہے۔ اگر سعد رضوی کو کسی بھی بہانے سے رہا کر دیا جاتا اور وہ رہائی کے بعد کسی درپردہ معاہدہ کے تحت ایسا مصالحانہ بیان جاری کرتے تو شاید ان کے ماننے والے بھی اس پر اعتبار کرنے پر آمادہ ہو جاتے لیکن موجودہ حالات میں جب کہ سیکورٹی فورسز نے جماعت کے مرکز کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور کالعدم تنظیم کے کارکنوں نے متعدد پولیس والوں کو یرغمال بنا کر ریاست سے براہ راست ٹکر لے رکھی ہے، سعد رضوی کے ایسے بیان پر اعتبار ممکن نہیں ہو گا جو ان کے ماضی میں دیے گئے بیانات اور رویہ سے برعکس ہے۔ اس موقع پر سعد رضوی سے منسوب یہ بیان جاری کر کے حکومت دراصل اپنی بے بسی اور کمزوری کا اظہار کر رہی ہے۔

لاہور سے موصول ہونے والی خبریں تشویشناک ہیں۔ سرکاری طور پر صرف زخمیوں کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ تحریک لبیک کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دو کارکن جاں بحق ہوئے ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس میں مرنے والوں کی تعداد پانچ تک بتائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہ نما خبروں میں یہ تعداد درجنوں میں بتائی جا رہی ہے۔ صورت حال غیر واضح ہے۔ حکومت اس نازک انتظامی معاملہ پر صاف گوئی اور دانشمندی سے کام لینے کی بجائے بدستور گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔ متضاد یا ایک دوسرے سے مختلف بیانات سے بے یقینی و بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے آج صبح تحریک لبیک کے احتجاج کو کچل دینے کی خبر دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کالعدم تنظیم سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ ہی مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ شام کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے لیکن اسے بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔ ان دونوں بیانات کو پرکھا جائے تو یہی واضح ہو گا کہ حکومت کو خود پتہ نہیں ہے کہ وہ ایکشن لے کر فساد پر اترے ہوئے ایک گروہ کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے یا اس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی خواہش مند ہے۔ خوں ریزی اور تند و تیز بیانات کے باوجود بھی شاید بیچ کا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ فرانس سے تجارتی و سفارتی تعلقات ختم کرنے کا تحریری معاہدہ کر کے خود اپنے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں معاہدہ کرتے ہوئے اور اس سال فروری میں تحریک لبیک سے 20 اپریل تک کی مہلت مانگتے ہوئے، سرکاری نمائندوں نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ اس معاہدہ کا متن ناقابل عمل ہے اور قومی اسمبلی میں ایک مبہم قرار داد کے ذریعے انتہائی اقدام کا مطالبہ کرنے والی ایک تنظیم کو مطمئن نہیں کیا جا سکے گا۔

حکومت اس وقت اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یتیم خانہ چوک کے مرکز میں یرغمال کیے گئے پولیس اہلکاروں کو رہا کروانے کے لئے اٹھایا گیا ایک غلط قدم شدید جانی نقصان کے علاوہ ایک حساس مذہبی معاملہ پر حکومت کی پوزیشن خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ اس موقع پرایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس تناظر میں یہ امر قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم اور تمام وزیر بیان دیتے ہوئے خود کو حرمت رسولﷺ کا محافظ اور رسول پاکﷺ پر جان نثار کرنے کے لئے تیار قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس موقع پرسول حکمرانی سے بغاوت کرنے والے ایک گروہ کے نعروں کو اپنا نے سے حکومت کا اپنا بیانیہ غیر واضح ہوجاتا ہے۔

بہتر ہوتا کہ تحریک لبیک کے معاملہ کو مذہبی حساسیت سے منسلک کر کے اس میں ’اتفاق رائے‘ کا پہلو نمایاں کرنے کی بجائے، اس گروہ کے تشدد، پولیس پر حملوں اور لاقانونیت کو بنیاد بنا کر اسے تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مذہبی پیغام پر رائے دینے کے لئے موجودہ بحران پو قابو پانے کا انتظار کر لیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments