تحریک لبیک کا احتجاج اور غیر مصدقہ ویڈیوز کی بھرمار: ’اگر معلومات کے ذرائع پر پابندی لگائیں گے تو لوگ غلط معلومات کو سچ ماننا شروع کر دیں گے‘


سوشل
’اگر آپ معلومات کے ذرائع پر پابندی لگائیں گے تو یاد رکھیں لوگ اُنھی غلط معلومات کو سچ ماننا شروع کر دیں گے جو اُن تک پہنچ رہی ہوں گی۔‘

یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا جانے والا ایک تبصرہ ہے جو پاکستان کے شہر لاہور میں موجودہ سکیورٹی صورتحال اور اس کے بعد ملک بھر کے دیگر شہروں سے سامنے آنے والی غیر مصدقہ ویڈیوز اور تصاویر کے تناظر میں پوسٹ کیا گیا۔

یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تحریک لبیک پاکستان کو حکومت کی طرف سے کالعدم تنظیم قرار دینے کے بعد ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اس تنظیم کی کوریج دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پیمرا نے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو چینلز کو ہدایت کی ہے کہ وہ کالعدم مذہبی تنظیم کی کسی بھی کوریج سے گریز کریں۔

لاہور پولیس کے مطابق کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنوں نے ایک ڈی ایس پی سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا جس کے بعد مظاہرین اور پولیس کے مابین اتوار کو تازہ جھڑپیں ہوئی تھیں۔

اتوار کے روز کیا ہوا اور اب سکیورٹی کی صورتحال کیا ہے؟ میڈیا پر اس معاملے کی کوریج نہ ہونے کے باعث ان بنیادی سوالات کے جواب جاننے کے لیے پاکستانی شہری اب زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی اطلاعات پر انحصار کر رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر گذشتہ 48 گھنٹوں سے صفِ اول کے تمام ٹرینڈز اسی حوالے سے ہیں، افواہوں کا بازار گرم ہے اور متضاد آرا اور دعوے کیے جا رہے ہیں۔

جہاں ایک طرف تحریک لبیک اور ان کے فالوورز کی جانب سے ایسی ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں جن میں لاہور میں ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد میں جمع ہے اور حکومت مخالف نعرے بازی ہو رہی ہے، وہیں حکومتی حلقوں کی جانب سے باور کرایا جا رہا ہے کہ لاہور میں صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے، ماسوائے ایک مقام کے (چوک یتیم خانہ) تمام سڑکیں اور بازار کھلے ہیں اور کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تحریکِ لبیک سے مذاکرات کے بعد یرغمالی اہلکار بازیاب، اہلسنت علما کی ملک گیر ہڑتال کی کال

تحریک لبیک کی وائرل ویڈیو اور فوجی اہلکار: مشتعل ہجوم کے سامنے کیسا رویہ رکھنا چاہیے؟

حکومتِ پاکستان کا پرتشدد احتجاج کے بعد تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا اعلان

حکومت جیتے گی یا تحریک لبیک کے سعد رضوی؟

تحریک لبیک کے فالوورز اس نوعیت کی ویڈیوز، تصاویر اور اپڈیٹس بھی شیئر کر رہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کارکنوں پر پولیس کی جانب سے تشدد کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو تحریک لبیک نے پولیس کے ساتھ ایک جھڑپ میں اپنے دو کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا جس کی حکومت نے اب تک تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔

https://twitter.com/CMPunjabPK/status/1383853633360384004

پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پولیس، رینجرز اور تمام ادارے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ لاہور میں ایک مقام کے علاوہ (جہاں کچھ عناصر نے سڑک بلاک کر رکھی ہے) پنجاب بھر میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’غیر تصدیق شدہ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات پر کان نہ دھریں۔‘

کئی صارفین حکومتی اہلکاروں سے سوال پوچھتے نظر آئے کہ ’سر وہ ایک آدھ جگہ ابھی تک کلیئر کیوں نہیں ہو سکی؟‘ کئی افراد شکایت کرتے نظر آئے کہ اس ایک مقام کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے اور روزے کی حالت میں کہیں جانے میں گھنٹے لگ رہے ہیں۔

https://twitter.com/arslankhalid_m/status/1383834369924558859

لیکن دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد نے لاہور شہر کی چند ویڈیوز پر مبنی ایک تھریڈ پوسٹ کیا ہے جن میں بظاہر شہر کی مختلف سڑکوں پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں ہے، بازار کھلے ہیں اور شہری معمول کی خریداری میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔

کئی سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ ارسلان خالد کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز پہلے کی ہیں کیونکہ شہر کی موجودہ صورتحال اس سے مختلف ہے۔ بیشتر صارفین معاونِ خصوصی کو یہ کہتے نظر آئے کہ ’سکیم موڑ اور یتیم خانہ کی بھی کوئی پرانی ویڈیو اپ لوڈ کر دیتے۔‘

کچھ لوگ انھیں کہتے نظر آئے کہ فلاں فلاں سڑک پر آئیں تو پتا چلے گا کہ حالات کیا ہیں۔

بیشتر افراد حکومتی آپریشن کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس آپریشن کی مخالفت میں بولنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

چند حکومتی اہلکاروں سمیت کچھ صارفین کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان میں ’سول وار‘ جیسے ٹرینڈ چلانے اور غلط معلومات کے پیچھے دراصل انڈیا کا ہاتھ ہے۔

اس حوالے سے وزیرِ اعظم کے ترجمان شہباز گل کی ٹویٹ قابلِ ذکر ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ انڈیا سے آج اس موضوع پر ڈھائی لاکھ ٹویٹ ہوئے ہیں۔‘

شہباز گل نے ایک بار پھر صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ تقریباً 12 کے قریب صحافی آج انڈین ایجنڈے پر ٹویٹ کر رہے ہیں جن کا مقصد پاکستان میں فساد اور انتہا پسندی پھیلانا ہے اور ماضی میں بھی یہ یہی کرتے آئے ہیں لہذا انھیں ’اِگنور‘ کریں۔ اور وطن عزیز میں ہر صورت امن قائم کر کے ایسی سازشوں کو ناکام کریں۔

حکمراں جماعت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی اسی حوالے سے کئی ٹویٹس کی جا چکی ہیں جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

پی ٹی آئی سوشل میڈیا سندھ ونگ کے سربراہ عبید الرحمن نے لکھا ’پھر سے پڑوسی ملک انڈیا کی جانب سے ففتھ جنریشن وار عروج پر ہے، کچھ اکاؤنٹس جو کہ انڈین سرزمین سے چل رہے ہیں، ان سے شدید پراپیگنڈا، فیک ویڈیوز، فیک نیوز پھیلائی جا رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آج ایک یا دو واقعات پیش آئے ہیں، جن کو بڑھا چڑھا کر سول وار کا نام دیا جا رہا ہے۔ اور کچھ اکاؤنٹس سے جس قسم کا مواد شیئر کیا جا رہا ہے، وہ سراسر جھوٹ اور پراپیگنڈا ہے۔

اس پر علی رضا نے انھیں جواب دیا ’جب اپنے نیوز چینلز پر پابندی ہو گی کچھ بھی دکھانے کی تو دوسروں کو تو موقع ملے گا۔‘

واجد رسول نامی صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’جو کروا رہا ہے انڈیا کروا ہے۔ ظالمو سکرپٹ بدلو۔ یہ بہت پٹ چکا ہے۔‘

اسی حوالے سے ایک اور صارف نے شہباز گل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ لوگ تو سمجھ دار تھے، معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے اور عوامی نمائندوں سے فیصلہ کروانے کے بجائے سعد رضوی کو آپ نے ہی گرفتار کیا۔۔۔ اور اب الزام اانڈیا پر کہ جو کروا رہا ہے وہ انڈیا ہے۔

کچھ لوگ شہباز گل سے یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ انڈیا سے کتنی ٹویٹس ہوئیں، ان کا حساب رکھنے کے علاوہ آپ نے ابھی تک حالات بہتر کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟

کچھ افراد کالعدم تحریکِ لبیک کی حمایت کرنے پر مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں جبکہ کئی افراد اُن کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp