تم بھی چل دیے ذوقی بھائی؟



تو تم بھی چل دیے ذوقی بھائی؟
بن پوچھے، بن بتائے!
ایسی بھی کیا جلدی تھی؟
بیٹھ رہتے کچھ روز اور،
تھوڑا اور تماشا دیکھ لیتے اس دنیائے ہست و بود کا۔
مانا کہ انسانی تماشے کی دید ذرا تکلیف دہ ہے،
بہت دل کڑا کرنا پڑتا ہے۔

مگر ہے تو دلچسپ یہ انسانی تماشا کہ دل کٹتا کٹ جائے پر ذوق تماشا کی سیری ہو نہ ان شوہدی آنکھوں کی ہوس پوری ہو۔

پھر کہاں دیکھنے کو ملیں گے ایسے تماشے ذوقی بھائی؟

ایسا رنگ منچ بھی تو نہیں ہے اور کوئی جس پر اپنے ہی قتل کا منظر تمام تر جزویات کے ساتھ ہر روز دہرایا جائے۔

اور کلاکار ہر روز تالیوں اور ونس مور کی صدا پر عالم حواس میں واپس آئے
اور اپنے لوتھڑے سمیٹ اپنے وجود کو اگلے روز تک کے لیے پہن لے۔
پھر ایسا تماشا کہاں بھائی!
سو کچھ روز اور تماشائی بن کر دیکھتے رہتے اپنا تماشا۔
وہ تماشا جو تمہارا بھی ہے، میرا بھی۔
رنگ منچ اجڑ جانے کے بعد تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے، خامشی ہی خامشی ہے۔

تم کہ ایک ناول نگار کی ازلی ہوس دید کے عادی ہو، اس لامتناہی اندھیرے اور خامشی سے کیونکر نبھا پاؤ گے؟

خیر، میری کس نے مانی ہے جو تم مانتے!
تم نے تو یہ بھی کہا تھا کہ مجھے ہندوستان بلاؤ گے۔
وہاں مجھے لیے لیے پھرو گے۔ دوستوں سے ملاؤ گے، اپنا ہندوستان دکھلاؤ گے۔

اور پھر ایک روز ہم بہت دور کے فاصلوں تک جانے والی ریل گاڑی میں بیٹھ کر اپنے سانجھے دوست سید محمد اشرف سے ملنے جائیں گے۔

میں تمہاری سادگی پر اور اس پرجوش پیش کش پر دل میں خوب ہنسا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ سراسر تمہاری محبت ہے ورنہ جن سنگھیوں اور مہا سبھائیوں کی زعفرانی رنگ سے لتھڑی دنیا میں اردو کے ایک متوسط طبقے کے مسلمان ناول نگار کی کیا بساط کہ وہ سرحد پار سے اپنے کسی دوست کو بلائے اور اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مرحوم شاہجہاں آباد کی قدیم گلیوں میں گھومتا پھرے جہاں غالب کا بسیرا ہے اور جہاں ایک عہد گم گشتہ کے سائے کسی کھوئی ہوئی مشترکہ تہذیب کی نوحہ گری کرتے ہیں۔

میرا بھی بہت دل چاہتا تھا کہ میں ایک بار بلی ماراں کی گشت نوردی تو خیر کر ہی لوں جہاں تم تو خیر تم ، خود میرے وجود کے ٹکڑے بھی بکھرے ہوئے ہیں۔

سو تمہاری اس محبت پر میں دل میں ہنسا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے آج دن تک اس خام خیالی کو دل میں بسائے رکھا تھا کہ میرا دل بھی بہت چاہتا تھا کہ میں سرحد پار کے ان بہت سے مانوس چہروں کو اپنے روبرو دیکھوں جن کے ساتھ میں ایک عجب سی وابستگی میں بندھا ہوا ہوں۔

میں تم سے اس لیے بھی ملنا چاہتا تھا کہ میں تم سے وہ راز جاننا چاہتا تھا کہ کیسے نفرت کے گرد باد کے عین بیچ میں رہتے ہوئے بھی تم نے اپنے تخلیقی وجود کو برقرار رکھا ہوا ہے، کیسے تم ایک ناروا ماحول میں جیتے ہوئے بھی اپنے اعصاب کو سنبھالے ہوئے ہو کہ لکھتے جاتے ہو اور جیتے بھی جاتے ہو جبکہ سرحد کے اس پار تو یہ عالم ہے کہ اب اپنے تخلیقی وجود کے ساتھ جینے کی کوئی سبیل ہی نہیں بچی۔ مجھے کسی اور کا تو نہیں پتا لیکن خود میں اپنے ہاں کے جھکڑوں، گردبادوں اور نفرت کی تند و مسموم آندھیوں میں ذرہ ذرہ بکھر چکا ہوں۔

سچ پوچھو تو میں تم سے حسد کرنے لگا تھا کہ تم کس کمال کے ساتھ خود کو سنبھالے ہوئے ہو جبکہ میں دونوں ہاتھوں سے خود کو سمیٹتے سمیٹتے تھکنے لگا ہوں۔

میں نے جب فیس بک پر (جو ہمارے درمیان رابطے کا واحد وسیلہ تھا) تمہاری موت کی خبر پڑھی تو کچھ دیر خبر کے الفاظ پر غور کرتا رہا لیکن پھر خالی ذہن کے ساتھ دوپہر کے نگھے کیف کو اوڑھ کر سو گیا کہ میں جانتا تھا کہ میں نے جس مشرف عالم ذوقی کی بے وقت موت کی خبر پڑھی ہے وہ تم نہیں کوئی اور ہو گا۔

تم ایسے کیسے مر سکتے ہو کہ جب میری صورت میں تمہارا نصف وجود سرحد کے اس پار تادم تحریر زندہ ہے؟

تم اگر مرگئے تو میرے لیے سرحد پار کی دنیا جو تم جیسے دوستوں کے دم سے میری اپنی تھی ، ایک ویسٹ لینڈ کی صورت پھر سے اجنبی بن جائے گی۔

لیکن وہ میرا لمحاتی تأثر تھا کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میں نے چپ چاپ مان لیا کہ تم مر چکے ہو۔

اس لیے کہ اپنی نیند تمام ہونے کے بعد میں نے خود اپنے وجود کو ٹٹول کر دیکھا تو پتا چلا کہ میں بھی تو مر چکا ہوں البتہ دماغ پر بہت زور دینے کے باوجود میں جان نہ سکا کہ میں زندہ کب تھا؟

خیر، اب جبکہ تم جا ہی چکے ہو تو اتنا تو ضرور کرنا کہ اپنے آس پاس کوئی جگہ میرے لیے بھی صاف کر رکھنا کہ اگر یہاں نہیں تو وہاں مل بیٹھیں گے اور خوب خوب باتیں کریں گے۔

تمہارا سرحد پار کا نادیدہ بھائی
محمد عاطف علیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments