قصہ 100 جوتے اور 100 پیاز کھانے کا


سنہ 2010 کے اوائل کی بات ہے۔ بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے ابوبکر ہال کے کمرہ نمبر 78 میں مقیم ایک قدرے کم گو نوجوان کے کمرے میں اچانک ہی محفلیں برپا ہونے لگیں، رات گئے تاش کھیلی جاتی، تھوڑے ہی دنوں میں اس وقت یونیورسٹی میں پی ایس ایف کے بانیوں میں سے ایک شاہ جی نے اس نوجوان پر دست شفقت رکھا اور یوں اس وقت برسراقتدار پی ایس ایف (پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن ) دھڑے سے بیزار سینئر رہنما اس نوجوان کی قیادت میں جمع ہونے لگے۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے برسراقتدار دھڑے میں تشویش کی لہر دوڑی اور دونوں دھڑوں میں کشیدگی سامنے آنے لگی اور حالات یہاں تک آن پہنچے کہ دونوں گروپوں میں پرتشدد جھگڑا ہوا اور گولیاں چل گئیں۔ واقعے کے خلاف وی سی آفس کے دھرنا شروع ہوا ڈیپارٹمنٹس بند کروائے جانے لگے تو پولیس کا آپریشن ہوا اور نئے دھڑے کے لیڈر صاحب گرفتار ہو گئے۔

گرفتاری کیا ہونی تھی۔ بھئی ان کی قسمت ہی کھل گئی۔ اس وقت کے ایم این ایز ایم پی ایز اور پیپلز پارٹی ملتان کی قیادت بیچ میں کود پڑی اس نوجوان کی نہ صرف ضمانت ہوئی بلکہ تنظیم کے اجلاس میں مقامی قیادت کے دباؤ پر نوعمر دھڑے کے اس نوجوان کو صدارت کا عہدہ دے دیا گیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ میرے جیسے کئی طلبا ہکا بکا رہ گئے اور آج گیارہ سال بعد کچھ ویسی ہی صورتحال سامنے آئی جب تحریک لبیک کے نوجوان امیر نے حکومت کو 20 اپریل تک کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے مطالبات پر عمل نہ ہونے پر اسلام آباد مارچ کی دھمکی دی تو پنجاب حکومت سمیت اسلام آباد میں بیٹھے اقتدار کے ایوانوں میں غصہ کی ایک لہر دوڑی اور پھر پتہ چلا کہ حافظ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

خبر اور ویڈیو جونہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ آنا فانا لاہور، کراچی، اسلام آباد کو تحریک لبیک کے کارکنان نے بند کر دیا، ملک بھر کی شاہراؤں کو بھی بند کر کے نظام زندگی مفلوج کر دیا گیا۔ اس سب صورتحال کو حکومت کو نقصان ہونے کے بجائے فائدہ ہوا اور ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں نے سوشل میڈیا پر تحریک لبیک کے خوب لتے لئے اوپر سے جلتی پر تیلی کا کام پولیس اہلکاروں پر تشدد کی وائرل ویڈیوز نے کیا اور دیکھتے دیکھتے ہی مجھ جیسے کئی شہری تحریک لبیک، اس کی سیاست اور طرز سیاست و احتجاج کے سخت خلاف ہو گئے اور سوشل میڈیا پر تو طوفان امڈ آیا، اس صورتحال میں نا اہلی کی تمام حدوں کو عبور کر جانے والی حکومت اور ہماری ریاست نے سکرپٹ میں ٹوسٹ ڈالا اور مظاہرین پر سیدھے فائر کر کے ایک دم میں غیر مقبول ہوتی جماعت کو پوری قوم کی ہمدردیاں دے ڈالیں۔

ملک کے 60 فیصد سے زائد بریلوی طبقہ فکر میں تو غصے کی لہر آئی ہی آئی پوری قوم ہی یک آواز ہو گئی اور یوں حکومت اور ریاست کو بیک فٹ پر جاتے ہوئے جھٹ پٹ میں کالعدم قرار دی جانے والی تحریک لبیک سے مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑا وہی وزیرداخلہ جو دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہ ہونے کا راگ الاپتے رہتے تھے نے سحری کے وقت ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں ان کا لہجہ یکسر ہی تبدیل تھا اور انہوں نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے مزید دور ہونے کی نوید سنائی۔ اسی دن ہی وزیراعظم نے پہلے ایک تقریب میں تحریک لبیک کے طرز احتجاج سے اختلاف کیا پھر اسی شام باقاعدہ سے قوم سے لمبا چوڑا خطاب کیا گیا اور اس میں مغربی دنیا کے بارے میں ایک طویل لیکچر دیا گیا اور فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے نتائج کی بھی بڑی بھیانک منظرکشی کی گئی۔

مگر اس خطاب کی بازگشت ابھی تھمی ہی نہیں تھی کہ پھر سے شیخ رشید کا ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں انہوں نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرار داد لانے، لبیک کے گرفتار کارکنوں کی رہائی، فورتھ شیڈول سے افراد کو نکالنے سمیت دیگر تمام وہی مطالبات جن کے لئے تحریک لبیک نے دھرنے کی دھمکی دی تھی۔ ماننے کا اعلان کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ریاست نے 100 جوتے بھی کھانے تھے اور 100 پیاز بھی کھانے تھے تو بجائے کئی جانوں کے ضیاع، اربوں روپے کے نقصان، اقوام عالم میں جگ ہنسائی کروانے کے پہلے ہی یہ سب کر لیا جاتا، اور سب سے بڑی بات ایک نوجوان جو ابھی اپنی ڈگری بھی مکمل نہ کرچکا ہوا اس کو آپ نے اٹھا کر لیڈر بنا دیا، ریاست ہاری بھی تو ایسے ہاری کہ اب تحریک لبیک کی جڑیں پہلے سی بھی اور گہری ہو گئیں، بہرحال اپوزیشن اور تمام مکاتب فکر کی غیرمشروط حمایت کے باوجود موجودہ حکومت اور ریاست کی تازہ ناکامی نے ملک کو الطاف حسین کی طرح کا ایک نیا لیڈر دے دیا جس کو اب یہ قوم اگلی کئی دہائیاں بھگتے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments