انخلا کے بعد امریکی فوج دوبارہ افغانستان گئی تو مشکلات ہوں گی: جنرل کینتھ مک کینزی


امریکی صدر نے 11 ستمبر تک افغانستان سے فوجیوں کے مکمل انخلا کا اعلان کیا ہے۔
ویب ڈیسک — امریکی سینٹرل کمانڈ کے جنرل کینتھ مک کینزی نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ افغانستان سے فورسز کے مکمل انخلا کے بعد دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اگر امریکہ کو کچھ وقت کے لیے دوبارہ افغانستان جانا پڑا تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

منگل کو ایوانِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اراکین کو مستقبل میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی ممکنہ ضرورت کے بارے میں بتاتے ہوئے جنرل میک کینزی نے کہا کہ میں اس پر پردہ ڈالنا نہیں چاہتا۔ نہ ہی میں آپ کو حقیقت سے دور رکھ کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کرنا بہت آسان ہو گا۔

ان کے بقول ہم اس وقت اپنے تمام وسائل کے ذریعے اس مسئلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاکہ انتہائی مہارت اور خطرے سے پاک طریقۂ کار تلاش کیا جا سکے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ‘یہ انتہائی مشکل ہو گا’۔

امریکی فوج کے منصوبہ ساز اس معاملے پر کام کر رہے ہیں کہ کس طرح افغانستان سے ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار امر یکی فوجیوں کی واپسی کا عمل آئندہ ماہ سے شروع کیا جائے۔

مک کینزی نے قانون سازوں کو بتایا کہ انہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کو آپشنز فراہم کریں۔ اس کے علاوہ مزید حکام بھی ممکنہ حل کی تلاش میں ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں لڑی جانے والی امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے اور 11 ستمبر 2021 تک تمام فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔

صدر جوبائیڈن کے افغانستان سے فوجیوں کے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد سے اس سلسلے میں کم معلومات نے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن قانون سازوں اور سابق حکام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

ادھر ملک کو درپیش دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے متعلق ایک سوال پر پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے پیر کو کہا تھا کہ ‘افغانستان میں امریکیوں کے دوبارہ قدم جمانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔’

انہوں نے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی فورسز کی دوبارہ داخلے سے متعلق کابل حکومت سے کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوا ہے۔

ان کے بقول ہمارے پاس دنیا بھر میں انسدادِ دہشت گردی کی بہترین صلاحیت ہے اور زمین پر ایسے کوئی جگہ نہیں جہاں ہمیں حملے کی ضرورت ہو اور ہم حملہ نہ کرسکیں۔

دوسری جانب امریکہ کی قائم مقام ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری دفاع امنڈا ڈوری نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کے معاملات مناسب انداز سے درست کرنے اور اس کو برقرار رکھنے پر غور جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم کے فیصلہ سازی کے عمل سے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے لیے مختلف منظر ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔

امریکی انٹیلی جنس کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ اور اتحادی فوج کی غیر موجودگی میں افغانستان میں امن کے امکانات ‘بہت کم ہیں’ اور افغان سیکیورٹی فورسز کی ناکامی القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

امریکی اور مغربی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں چند سو جنگجوؤں تک رہ گئی ہے لیکن ان میں سے کئی کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ معاملات میں یہ طالبان کی موجودہ قیادت اور کنٹرول اسٹرکچر میں ضم ہو جاتے ہیں۔

حکام نے داعش خراسان سے متعلق بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس کے ایک سے ڈھائی ہزار تک جنگجو ہیں اور وہ مغرب کے خلاف دہشت گرد حملے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں امریکہ کے خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر سمیت کچھ اعلیٰ حکام نے زمین پر کسی قسم کی موجودگی کے بغیر ان گروہوں کا پتا لگانے کے قابل ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کے دورۂ افغانستان کا مقصد افغان قیادت کو یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ امریکہ افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

SEE ALSO:

امریکی فوج کا انخلا: ‘صدر بائیڈن کے اعلان سے افغان عوام کے خدشات ختم ہو گئے ہیں’

سابق امریکی جنرل اور افغان جنگ کے ابتدائی برسوں میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف رچرڈ میئرس نے کہا کہ انٹیلی جنس کی کمی کی تلافی کے لیے مختلف راستے ہو سکتے ہیں یہ ایک ‘جائز تجویز’ ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ ہم نے اس بارے میں سوچا ہو گا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دیگر منصوبے بنائے ہوں گے کہ ہمارے پاس اتنی انٹیلی جنس ہے کہ ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ گروہ کیا کر رہے ہیں۔

ان کے بقول اس کے بغیر اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ پورے دنیا کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments