زندگی سے بڑے لوگ


کچھ لوگ اپنے علم کو کتابوں میں لکھ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیاہے۔ ان کے پاس علم کا جو خزانہ تھا انہوں نے دوسروں تک پہنچا کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ لیکن بہت کم اور خاص ہوتے ہیں ایسے لوگ جن کی زندگی کا احاطہ اور علم صرف کتابوں میں قید نہیں ہو سکتا ۔ ان کے علم سے مستفید ہونے کے لئے کئی زندگیاں درکار ہوتی ہے۔

فرخ سہیل گوئندی بھی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی زندگی اور کام کا احاطہ صرف چند آرٹیکلز اور کتابوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ایسے لوگوں نے اپنی زندگی میں کئی عہد جیے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کو حقیقی معنی میں جیتے ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی ایک فرد واحد ہی نہیں بلکہ ایک پورا جہاں ہیں۔ وہ زندگی کے رنگوں اور مقصد کو بخوبی گزار چکے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے ہر لمحہ کو زندگی کے حقیقی معنی میں جیا ہے۔

وہ لوگ جو فرخ سہیل گوئندی کو ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں اوران کے ساتھ رفاقت کا شرف رکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ وہ کس قدر قد آور، متحرک، علم دوست، دوسروں کو تحریک وترغیب دینے والے اور انسانوں اور آئیڈیاز سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان سے ملنے، ان کی گفتگو سننے، ان کا انٹرویو کرنے، ان کے ساتھ کھانے اوران کو پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ان سے کراچی میں ملاقات کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتابیں مجھے بطور تحفہ پیش کیں تو میں نے وعدہ کیا کہ میں انہیں ضرور پڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔

فرخ سہیل گوئندی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔
وہ علم کا ایک ایسا سمندر ہیں جو علم کے متلاشیوں کو ہمیشہ علم کے موتیوں سے مالا مال کرتے رہتے ہیں۔

لوگ در لوگ ایک ایسی شاندار اور بے مثال کتاب ہے جس کا مطالعہ ہمیں زندگی کو ایسی نظر سے دیکھنے کی سوچ دیتا ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی کے سفر کا ایک مختصر باب اور خاکہ ہے۔

یہ کتاب ان کی زندگی کے مقصد، سیاسی، سماجی اور علمی سفر کی دلچسپ داستان ہے۔ یہ کتاب وسیع تاریخی پہلو اور انسان دوستی، اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد اور ثابت قدمی کی بہترین مثال ہے۔ فرخ سہیل گوئندی صاحب اپنی ذات میں یونیورسٹی ہیں۔ یہ بات میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ آپ اس کتاب کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھیں۔ یہ کتاب پرنٹننگ، ڈیزائننگ اور مارکیٹنگ کے حوالے سے ایک ماڈل کتاب ہے۔ اتنی عمدہ کوالٹی کی معیاری اور دیدہ زیب کتاب فرخ سہیل گوئندی کا کمال ہے اور ان کے ادارے جمہوری پبلیکیشنز ہی بہترین کاوش ہے۔

ایسی کتابوں کے بارے میں اپنی رائے نہیں دی جاتی اور نہ ہی تبصرہ کیا جاتا ہے بلکہ ایسی کتابیں پڑھنے کے لئے لوگوں کو ترغیب (Recommend) دی جاتی ہے اور گفٹ کی جاتی ہیں۔ البتہ کتاب میں اپنی چند پسندیدہ باتیں، فقرے اور واقعات آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ صحفہ نمبر 9 پر کتاب کے مقصد کو لکھتے ہوئے فرخ سہیل گوئندی صاحب نے میرے خیال میں ایک جملے میں ہی اس کتاب کا نچوڑ لکھ دیا ہے۔

”اور ملتا چلا گیا۔“ ”لوگ در لوگ“ ان واقعات اور تجربات پر مشتمل ایک کتاب ہے، جنہیں میں نے اپنی سیاسی جدوجہد، قلمی میدان اورعملی زندگی کے دوران دیکھا، بیتا یا محسوس کیا۔ ”

انہیں اپنے آبائی شہر سرگودھا پر فخر بھی ہے اور دکھ بھی کہ اس کے تاریخی اثاثے کو محفوظ نہیں رکھا گیا۔ وہ اپنی Roots سے اتنے جڑے ہیں کہ انہیں اس پر ناز ہے، لاہوران کے دل میں بستا اور روح میں رچا بسا ہے۔ صحفہ 37 پر وہ اس خطہ کی بہت بڑی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ”سرگودھا، لندن اور استنبول۔

مسلمان، سکھ اور مسیحی۔
گوردوارہ۔ امام بارگاہ۔ عمارت وہی مگر پجاری بدل گئے۔
یہ سب کچھ اس کہانی کے 100 سال ہی کے اندر برپا ہوا۔ ”
صحفہ نمبر 83 پر شمعون پیریز کے سامنے سوال ایک فلمی منظر بیان کرتا ہے۔

صحفہ نمبر 93 پر بابائے سوشلزم شیخ محمدرشید کے بارے میں کہتے ہوئے لکھتے ہیں ”بڑے لوگ صرف سکھاتے نہیں بلکہ سیکھتے بھی ہیں۔ ان کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی۔ بڑے لوگوں کے ہاں ارتقا اور آگہی کاسفر آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔“

صحفہ نمبر 96 پرلکھتے ہیں ”میں کسی وزیر اعظم کا بیٹا، وزیر یاکسی جماعت کا لیڈر نہیں کہ تعلقات اور تعارف وراثت میں ملے۔ میں ایک خوش نصیب انسان ہوں۔“

صحفہ 102 پر لکھتے ہیں ”بڑے لوگ اپنے اردگرد ہمیشہ بڑے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔“

صحفہ 103 پر لکھتے ہیں ”ایک جملہ جو میں نے ملک معراج خالد سے سنا، اب میری زندگی کا اہم موٹو ہے۔ انہوں نے کہا،“ کچھ تو ہو جاتا ہے جب ملتے رہیں۔ ہم پچاس کی دہائی میں ملنا شروع ہوئے اور ساٹھ کی دہائی میں پی پی پی بن گئے۔ ”یہ اتنا بڑافلسفۂ زندگی تھا جو چند لفظوں میں وہ مجھے بیان کر گئے۔“

صحفہ 181 پر ڈاکٹر انور سجاد کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ”انقلابی جیل سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں آتا، انقلابی جیل سے چھوٹے، اس کے ہاتھ میں فکر سے لبریز کتاب نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔“

صحفہ 185 پر ڈاکٹر سجاد انور سے اپنی آخری ملاقات کا منظر نامہ بیان کرتے ہیں۔

”اور میں، جی چاہتا تھا کہ وقت رک جائے۔ میں اٹھنا چاہتا تھا اور رکنا بھی چاہتا تھا۔“ یہ ایک ایسا ہولناک منظر ہے ناں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔

یہ کتاب ایک شاند ار کتاب ہے جس کا مطالعہ یقینی طور پر ایک خوش گوار تجربہ ہو گا اور آپ کو فرخ سہیل گوئندی کی دنیا ان کی نظر سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔

کیونکہ یہ ایک زندگی سے بھرپور کتاب ہے جس کا مطالعہ کسی دنیا کے سفر سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments