کلموہی


وہ ایک گرم دن تھا۔ ائیر کنڈشنز سے ٹھنڈے کیے گئے کمروں میں سکوت سا تھا، گھڑیال کی سوئیاں بنا آواز کے چپکے سے ایک دوسرے کے تعاقب میں تھیں۔ سڑک پر معمول کی ٹریفک کا شور تھا جبکہ دکانوں کے شیشوں سے ٹکرانے والے گرم ہوا کے تھپیڑے دکان کی اندرونی ٹھنڈک میں ضم ہو کے دم توڑ رہے تھے۔

ایسے موسم میں تو پرندے بھی گھونسلوں سے باہر نہیں نکلتے اور یہ تو پھر حضرت انسان کا علاقہ تھا۔ لوگ اپنے گھروں کے ٹھنڈے کمروں میں آرام فرما رہے تھے اور دور دور تک کسی گاہک کے آثار نہیں تھے ۔ اس وقت اس کی نشیلی آواز نے سناٹا ختم کیا۔

یہ آج کے دن کا تیسرا گاہک تھا جو میری دکان میں موجود تھا۔

اس کی نیم سیاہ گھنی دراز زلفیں سیاہ دوپٹے میں شانوں سے جھلک رہی تھیں جبکہ شانہ ادھڑ چکا تھا۔ ہونٹ خشک تھے جن پر پھیلی پھیکی سی مسکراہٹ اپنے مصنوعی پن میں کمال تھی۔ آنکھیں سرخ انگاروں کی ماند دہک رہی تھیں۔

جسم سے کھال کی طرح لپٹا چست سیاہ لباس سر تا پا تاریکی کو اوڑھے دن میں سیاہ حاشیے بنا رہا تھا۔ ہاتھ میں کالے نگینے کی انگوٹھی، کلائی میں کالا دھاگہ، کمان کی طرح تنے سیاہ ابرو اور ماتھے پے کالی بندی۔

دکان میں داخل ہونے پر اس کے پاؤں سے رستے خون نے فرش پر ایسے نشان ثبت کر دیے تھے کہ جیسے کسی ہندو گھرانے کی نئی بہو گھر یا پرویش کی رسم ادا کرنے کے لیے سرخ قم قم میں گھلے محلول سے گھر کی دہلیز پر اپنے پہلے قدموں کی چھاپ چھوڑے۔

آنکھوں کے سرخ ڈورے، زبان کی لکنت اور اس کی ہچکچاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ خود میں نہیں تھی اور پھر اس نے خود ہی اس بات کا اقرار کیا کہ مخصوص قسم کے دو انجیکشن اس 16 سالہ جسم میں اترے ہیں تب کہیں جا کر ان آنکھوں کا رنگ خون آلود ہوا ہے اور ابھی بھی اس کا تقاضا تھا ایسی ہی نشہ آور لال گولیاں چاہئیں۔

”مجھے لال گولیوں کا ایک پورا پتا دے دو۔“ یہ اب تک کا اس کا پہلا سوال تھا۔

کون سی لال گولیاں؟ میں عجیب حیرانی میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔
”اوہ ہو، وہی جو لال ہوتی ہیں!
سکون کی لہر تھی یا نیند کا غلبہ ، وہ اپنے الفاظ ادا کرنے میں کمزور محسوس ہو رہی تھی۔

’یہ میڈیکل سٹور ہے، یہاں ہزاروں دوائیاں سرخ رنگ کے لیبل میں ہوتی ہیں۔ تمہیں کون سی چاہیے ،نام بتاؤ اور ڈاکٹری نسخہ دکھاؤ۔ ورنہ نہیں ہیں یہاں کوئی لال گولیاں۔‘

’سارے ایہو آکھدے نیں، ساڈے کول کوئی نیں، نسخہ دیکھا، کیوں لیندی ایں، اے، تے اوہ، اتے مڑ دے وی ڈینڈے نیں! تو وی ڈے چاہ سوہنیا۔‘

اب کی بار اس کے لہجے میں التجا تھی۔

وہ نیند کی گولیوں کا تقاضا کر رہی تھی لیکن ایسی گولیوں کی سرعام فروخت پر سرکار کی جانب سے ممانعت تھی اور پھر نابالغ کو تو ویسے بھی یہ فروخت نہیں کی جا سکتی تھیں۔

اس سے ہٹ کر بھی وہ پہلے ہی مدہوشی میں چور تھی ، مجھے ڈر تھا کہ مزید گولیاں کھانے سے وہ ہمیشہ کی نیند بھی سو سکتی ہے۔

میں نے اس کے پاؤں سے رستے خون کی طرف اس کا دھیان دلایا اور اسے بتایا کہ اسے نیند کی گولیوں کی نہیں بلکہ دردکش گولیوں کی ضرورت ہے اور ساتھ میں مرہم پٹی کروانی چاہیے کیونکہ اس کے پاؤں میں ایک تازہ زخم ہے اور اس میں سے خون رس رہا ہے۔

اس نے اپنے پاؤں کو الٹا اٹھا کر بے دھیانی سے ایک نظر ڈالی اور مطمئن لہجے میں تسلی دینے لگی کہ یہ روز کا معمولی زخم ہے، خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔

”کیسے لگا یہ زخم“ میں نے سوال کیا۔

”زخموں کا کیا ہے یہ تو مفت میں مل جاتے ہیں لیکن یہ جو زخم تمہیں نظر آ رہا ہے یہ میرے روز کا مقدر ہے۔ آج بھی کباڑ کا سامان بیچنے گئی تو وہاں اس منحوس کباڑیے نے میرے کپڑے پھاڑ دیے اور زبردستی کی۔ بھاگ کر فرار ہونا پڑا مجھے، تبھی پتا نہیں کہاں سے پاؤں میں کچھ چبھ گیا اور یہ حالت ہو گئی۔“ بات سنانے کے بعد اسے درد کا احساس ہوا تو اس نے لنگڑاتے ہوئے سٹول کا سہارا لیا اور بیٹھ گئی۔

”روز ایسی کوئی نہ کوئی بات ہو جاتی ہے۔ مجھ پر تو یہ لوگ ایسے کودتے ہیں جیسے جنگلی کتے قصاب کی دکان پر حملہ کریں۔ یہ نہیں جانتے کہ اس جسم میں اب بچا ہی کیا ہے۔ میلے، کچیلے، گرد آلود گوشت سمیت مجھ کلموہی کو بھی نہیں چھوڑتے۔پاکی تو دنیا سے اٹھ ہی گئی ہے۔“ نیچے گرے کاغذ کے ٹکڑے سے اس نے پاؤں کو صاف کیا۔

میں نے فرسٹ ایڈ بکس سے روئی نکال کر اسے دی اور ساتھ میں جراثیم کش محلول چھڑک دیا کہ پاؤں کو آرام آ سکے۔

”اس دوائی کی کوئی ضرورت نہیں ، مجھے لال پتے والی گولیاں دے دو تو تمھارا بڑا احسان ہو گا۔“ اس نے ایک بار پھر التجائیہ انداز میں میری توجہ اپنے مطالبے کی طرف دلائی۔

”مر جاؤ گی ایک دن یہ گولیاں اور زہریلے انجیکشن اپنے جسم میں اتار کر۔ مت کیا کرو ایسا۔“ میں نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔

مر تو جانا ہی ہے لیکن ابھی کے لیے تو زندہ ہوں ناں تو زندہ رہنے کے لیے مجھے پیسے چاہئیں اور میرے پیسے اس حرام خور کے پاس ہیں ، جس سے میں بھاگ کر آئی ہوں۔

مجھے اس کے پاس اپنے پیسے لینے واپس جانا ہے اور واپسی پر میں یہ گولیاں اپنے اندر اتار کر جاؤں گی تاکہ ہر حرکت سے بے نیاز ہو جاؤں۔ تم خدارا مجھے وہ گولیاں دے دو۔

”روز، روز یہی کرتی رہو گی اور ہے کیا تمھاری زندگی میں۔“ میں نے غصے سے گولیوں کا سرخ پتا اسے تھمایا۔
”بدلہ“ بدلہ ہے میری زندگی میں! اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
”کیا مطلب، کیسا بدلہ“ میں نے پوچھا۔

”اس سماج کے منہ پر کالک ملنے کا بدلہ جو اس نے میرے منہ پر ملی ہے۔ جس طرح کچھ انسانی مسئلوں کا علاج نہیں، اسی طرح کچھ انسانی بیماریوں کا بھی علاج نہیں ہے اور وہ بیماریاں مجھے لاحق ہیں جن سے میں تو مروں گی ہی لیکن ساتھ میں کسی ایسے قصائی کو بھی لے ڈوبوں کی جو ہر روز کمزور وجود کی گردن دبوچتا ہے۔ میں جس کے پاس جا رہی اس کی موت بن کر جا رہی ہوں اور اس کا علاج تمہارے اس میڈٰکل سٹور میں پڑی دوائیوں میں بھی نہیں ہو گا۔“

”میں کچھ سمجھا نہیں!

ایڈز کا نام سنا ہے کبھی؟ اس نے گولیوں کا پتا اٹھایا اور واپس مڑ کر دیکھے بغیر وہ سڑک کے پار ایک نیم تاریک گلی میں گم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments