ترکی کی جارحانہ خارجہ پالیسی میں لچک کی وجہ کیا؟

ولیم آرم سٹرانگ - ترک امور کے ماہر


ترک صدر
ترکی کی خارجہ پالیسی ایک عرصے تک جارحانہ اور نظریاتی بنیادوں پر چلائے جانے کے بعد اب حقیقت پسندانہ رخ اختیار کرتی نظر آ رہی ہے اور علاقائی طاقتوں سے تعلقات میں بہتری لانے کے اشارے مل رہے ہیں۔

سالہا سال کے کشیدہ تعلقات کے بعد سعودی عرب اور مصر سے روابط میں ترکی کی جانب سے مفاہمتی انداز کا اختیار کیا جانا اس سمت میں واضح اشارے ہیں۔

یہ مفاہمتی انداز دوسرے معاملات میں بھی صاف طور پر نظر آ رہا ہے اور ترکی یورپی یونین کی جانب سے محدود پابندیاں لگائے جانے کے بعد بحیرہ احمر کے متنازع حصوں میں تیل اور گیس کی دریافت کی سرگرمیوں سے بھی پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ تناؤ کے باوجود ترکی دونوں ملکوں سے اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح اس نے چین اور امریکہ سے بھی متوازی تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ترکی کو کسی ملک کے ساتھ جو اپنے ملکی مفاد کو ترجیح دیتا ہو، ایسے کوئی مسائل درپیش نہیں، جن کا حل نہ کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

موصل کی جنگ اور ترکی کے عزائم

ترکی بمقابلہ شامی کرد: ماضی، حال اور مستقبل

’خطرے کی حد‘ پر ترکی کا امریکہ کو انتباہ

انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں پر عزم ہیں کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنے دوستوں میں اضافہ کریں گے اور مخاصمت کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

صدر اردوغان کا یہ لب و لہجہ گزشتہ چند برسوں میں ملکی ذرائع ابلاغ اور سرکاری بیانات کی زبان سے مطابقت نہیں رکھتا، جس میں مذہب اور قومیت کا رنگ غالب رہا ہے۔

ترک صدر

حریفوں سے مفاہمت

ترکی نے سنہ 2013 کے بعد سے ایک علاقائی پالیسی اختیار کیے رکھی جس میں مخالفین کے خلاف سخت بیانیہ اپنایا گیا اور حماس اور اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کی شخصیات کو ملک میں مدعو کیا گیا۔

اس وجہ سے اس کے مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات بگڑتے چلے گئے اور شام میں خانہ جنگی میں شامی باغیوں کے لیے اس کی حمایت کو بنیاد فراہم کی اور اسی وجہ سے ترکی خطے میں تنہائی کا شکار ہوتا چلا گیا جس کا معاشی اور سفارتی نقصاں بڑھتا چلا گیا۔

اس کے نتیجے میں ترک حکام نے حال ہی میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی سنہ 2013 میں اقتدار سے علیحدگی کے بعد سے مصر کے ساتھ چلے آ رہے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔

ترکی میں صدر کے ایک ترجمان ابراہیم قالن نے خبر رساں ادارے بلوم برگ کو چھ مارچ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ مصر اور خیلجی ملکوں کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب شروع کیا جا سکتا ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ میولت چووشولو نے 15 اپریل کو کہا تھا کہ ترکی مئی میں اپنا ایک سرکاری وفد مصر کے دورے پر بھیجے گا۔

اطلاعات کے مطابق مصر کی حکومت ترکی سے مطالبہ کر رہی ہے کہ مصر سے تعلقات بحال کرنے کے عوض ترک حکومت استنبول سے چلنے والے مصری ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائے۔

ترکی نے حال ہی میں سعودی عرب کو خیر سگالی کے پیغامات بھیجے ہیں جس کے ساتھ وہ کافی عرصے سے علاقائی سطح پر بالادستی حاصل کرنے کی کشمکش میں الجھا ہوا تھا۔

ترکی، سعودی عرب

سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کی طرف سے قطر پر عائد کردہ پابندیوں کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت جاری رکھی تھی جس کی وجہ سے سعودی عرب نے ترکی کی درآمدات پر پابندی لگا دی تھی۔

اسی دوران ترکی نے مشرقی بحیرہ احمر کے متنازع حصوں میں قدرتی توانائی کے وسائل کی تلاش کا کام تیز کر دیا تھا جس کے بعد یورپی یونین نے اس پر محدود پیمانے پر پابندی عائد کر دی تھیں۔ ترکی نے بعد میں برسلز کے ساتھ ایک مثبت ایجنڈے پر زور دیتے ہوئے یونان سے مذاکرات شروع کیے گو کہ اس سے کشیدگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

رجب طیب اردوغان نے 24 مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ ’ہم امریکہ سے لے کر روس، یورپی یونین اور عرب دنیا تک اپنے تعلقات کو ترکی کے مفادات اور قوم کی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے نئی جہت دیں گے۔ یورپ، افریقہ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے حوالے سے ترکی کو یہ آسائش حاصل نہیں کہ وہ مشرق یا مغرب سے اپنا منہ موڑ لے۔‘

روس، یوکرین اور چین

ترکی کی خارجہ پالیسی میں حقیقت پسندانہ طرز عمل کئی اور جگہوں پر بھی نظر آتا ہے۔

روس اور یوکرین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ترکی نے ایک درمیانی مگر مشکل راستہ اختیار کرتے ہوئے دونوں ملکوں سے اپنے تجارتی، توانائی اور دفاعی شعبوں میں تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے 13 اپریل کو ایک بیان میں کہا کہ روس کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

اس ہی تقریر میں انھوں نے اس ارادے کا اظہار بھی کیا کہ ترکی اور یوکرین کے تعلقات کو بڑھانے کے لیے اور خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گئے۔

ترکی اور روس کے صدر

ترکی کے صف اول کے حکومت نواز روزنامے کے ایک کالم نگار محمد برلاس نے ترکی کے طرز عمل کا خلاصہ کرتے ہوئے 12 اپریل کو تحریر کیا کہ ’ترکی کی یوکرین کے لیے حمایت سے ترکی کی روس سے جھگڑا کرنے کی خواہش کا قطعاً اظہار نہیں ہوتا۔‘

چین کے ساتھ تعلقات میں ترکی نے ترک زبان بولنے والے اویغور مسلمانوں سے مبینہ زیادتیوں کے بارے میں بیجنگ سے اپنے اختلافات کو کم کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ترکی میں اویغور تارکیں وطن کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے لیکن قوم پرست اور انسانی حقوق کے عملبرداروں کی طرف سے احتجاج کے باوجود انقرہ نے حالیہ برسوں میں بیجنگ سے اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بہتر کرنے پر زور دیا ہے۔

ترک اعلی حکام نے دونوں ملکوں کے درمیان ذرائع ابلاغ کے شعبے میں تعاون کو سراہا ہے اور ترکی نے ابتدا میں چین میں بنائی گئی کورونا ویکسین کو اپنے ویکسینیشن پروگرام میں ترجیح دی تھی۔

ترک خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی یہ ایک اور بڑی واضح مثال ہے۔ جولائی سنہ 2009 میں وزیر اعظم اردوغان نے اویغور مسلمانوں پر چین کی طرف سے سختیوں کے بارے میں اسے تقریباً نسلی کشی کے مترادف قرار دیا تھا۔

امریکہ سے تعلقات میں بہت سے متنازع مسائل کی وجہ سے ترک حکام نے امید کا اظہار کیا ہے کہ جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں لچکدار اور باہمی مفادات پر مبنی تعلقات استوار ہو جائیں گے۔

ترکی، چین، روس

مظلوموں کی آواز

حقیقت پسندانہ تبدیلی حالیہ برسوں میں انقرہ کے طرز عمل سے بالکل مختلف نظر آ رہی ہے۔

ترک حکام طویل عرصے سے اپنی خارجہ پالیسی کے درست اور اصولی ہونے پر اس کی تعریف کرتے رہے ہیں کہ ترکی عالمی سطح پر جبر کا شکار لوگوں اور مسلمانوں کی ترجمانی کرتا رہا ہے۔

اسلام کی بالادستی کا بیانیہ سرکاری بیانات، ٹی وی ڈراموں، صدر اردوغان کی تقریروں اور صدارتی محل سے نشرو اشاعت کے شعبے سے جاری ہونے والی ویڈیو فلموں میں حاوی رہا ہے۔

حکومتی جماعت کی انتخابی مہم کے دوران جاری ہونے والے ایک نغمے میں اردوغان کو پسے ہوئے لوگوں کی آواز، خاموش دنیا میں آزادی کی آواز، لوگوں کے نمائندے، انصاف پسند اور لاکھوں افراد کی امید قرار دیا گیا تھا۔

خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلی اس سوچ کی عکاسی نہیں کرتی اور ایک سیاسی تبصرہ نگار سیزن اونے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی لچکدار اور دوغلی ہے۔

بہرحال حکومت کے ناقدین اور حمایتی دونوں کی طرف سے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

ایک سینئر صحافی مراد یتین نے 9 مارچ کو لکھا کہ اگر باہمی مفاد ہوں تو مفاہمت ہو سکتی ہے اور ہر پسپائی اور ہر مصالحت خراب نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ ترکی اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ برے تعلقات کی معاشی انتہا تک پہنچ گیا تھا۔

ایک اور اخبار صبا میں ایک کالم نگار نے لکھا کہ مصر کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششیں انقرہ کی امریکہ اور یورپی یونین سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی کا حصہ ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے بھی تعلقات کو بہتر کرنے کے بارے میں غور کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام اقدامات ان کی نظر میں خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال کے تجزیے کے بعد خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پس منظر میں کیے جا رہے ہیں۔

کیا خطے میں حریف ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا آسان ہو گا؟

حقیقت پسندی ہمیشہ ایک مناسب طرز عمل رہا ہے لیکن اس کی اپنی قباحتیں ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یوکرین اور روس دونوں سے انتہائی کشیدگی کے دور میں تعلقات ایک نہج پر رکھنا بہت مشکل کام ہے۔

ترکی نے روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام حاصل کیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور امریکہ سے ایک وقت میں اچھے تعلقات قائم رکھنا کتنا مشکل ہے۔

ترکی کے روس سے اس دفاعی سودے کے بعد امریکہ نے ترک حکام پر پابندیاں لگا دیں اور نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود اس کو ایف 35 لڑاکا طیاروں کی تیاری کے پروگرام سے الگ کر دیا۔ ان پیچیدگیوں کے درمیان ترکی ایس 400 دفاعی نظام کو اب تک فعال نہیں کر سکا۔

خطے میں بھی حریف ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ یونان، قبرص، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 16 اپریل کو قبرص میں ہوا جس کے بعد ترکی کے ذرائع ابلاغ میں اس اجلاس کو ترک مخالف اتحاد قرار دے کر ایک بھونچال آ گیا۔

ایک ایسی صورتحال میں جہاں ترکی دیکھتا ہے کہ دنیا میں کئی طاقتیں سامنے آ رہی ہیں، جن میں رسہ کشی جاری ہے اور نئے اتحاد وجود میں آ رہے ہیں، ترکی اس امید کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھے گا کہ وہ خطے میں اپنے لیے کوئی برتر مقام حاصل کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp