ہدایت اور شفایابی کا مبارک مہینہ


سورۂ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مبنی ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق واضح کر دینے والی ہیں۔ آگے چل کر سورۃ القدر میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ اس رات حضرت جبرائیلؑ اور فرشتے اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر آتے ہیں۔ وہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سرور کائنات حضرت محمدﷺ رمضان کی آمد سے پہلے ہی کمرہمت کس لیتے، خالق حقیقی کی عبادت میں مشغول ہو جاتے، اس سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور صحابہ کرامؓ کے تزکیۂ نفس پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ قرون اولیٰ میں ہر مسلمان کی سب سے بڑی کوشش یہی ہوتی کہ رمضان کے برکتوں والے مہینے میں زیادہ سے زیادہ رحمتیں سمیٹی جائیں اور اپنے اخلاقی اور معاشرتی امراض سے شفا حاصل کی جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں طرح طرح کی مہلک بیماریاں در آئی ہیں جن سے مسلم امہ زوال کا شکار دکھائی دیتی ہے اور پاکستان جو پوری اسلامی دنیا میں ایٹمی طاقت کے منصب پر فائز ہے، اس میں اعلیٰ قیادت کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے باعث مسلم دشمن طاقتیں سازشوں کی بساط بچھانے میں بہت سرگرم ہو گئی ہیں۔

اخلاقی زوال نے ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی طبقات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور وہ تمام خرابیاں جن پر ماضی میں قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا آیا ہے، وہ مسلمانوں کے اندر اپنی جڑیں دور تک پھیلا چکی ہیں۔ غذاؤں اور دواؤں میں بڑے پیمانے پر ملاوٹ جس کی قرآن حکیم نے بار بار مذمت کی ہے اور کڑی سزاؤں کی نوید سنائی ہے، اس کا چلن ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ کم تولنا، ذخیرہ اندوزی کرنا، ناجائز طور پر نفع کمانا، ہمارے کاروباری طبقے کا معمول سا بن گیا ہے۔

رمضان میں روزمرہ استعمال میں آنے والی اشیاء کی کم یابی اور گرانی شہریوں کے لیے سوہان روح بنتی جا رہی ہیں۔ فریب دہی اور دغابازی تو فن کاری کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہیں۔ غیبت جسے اللہ تعالیٰ نے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے، اس کا ’ذوق‘ ہماری سوسائٹی میں روزافزوں ہے جبکہ دشنام طرازی اور بدکلامی ’ایلیٹ‘ کا طرۂ امتیاز بن گیا ہے۔ ہمیں ان بیماریوں سے شفایابی کی ماہ رمضان میں خصوصی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمارے وطن عزیز پر رب کریم رحمتوں کی بارش نازل فرماتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرتا رہے۔

قرآن حکیم کے مطالعے سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے بڑا فساد جھوٹ اور منافقت سے پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’المنافقون‘ کے عنوان سے ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے۔ اس کا غالباً سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ اس کے آخری نبی حضرت محمدﷺ جب جزیرہ ہائے عرب میں اسلامی انقلاب خون جگر سے برپا کر رہے تھے، تو ان کی عظیم الشان جدوجہد میں منافقین سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سورہ المنافقون میں ان کے طور و طریق وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں جو آج کے منافقین کی نشان دہی میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم قرآن حکیم کی سورت کا خلاصہ پیش کرتے ہیں کہ جن افراد یا گروہوں میں منافقت کی نشانیاں پائی جائیں، وہ رمضان المبارک میں ان کی اصلاح پر خصوصی توجہ دیں تاکہ معاشرے میں باہمی اعتماد فروغ پائے اور دل کا سکون میسر آئے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح جو لوگ اللہ کے رستے سے خود رکتے اور دنیا کو روکتے ہیں، یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا۔ انہیں دیکھو تو ان کے جثے بڑے شاندار نظر آئیں گے۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ، مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیے گئے ہوں۔ یہ زور کی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں، ان سے بچ کے رہو۔ اللہ کی مار ان پر، یہ کدھر ا ’لٹے پھرائے جا رہے ہیں۔

”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول ﷺ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، تو سر جھٹکتے ہیں اور بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے انکار کرتے ہیں۔ اے نبی ﷺ ! تم چاہو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے۔ اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول ﷺ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کرو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں، زمینوں اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک اللہ ہے۔

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں، وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تمہاری موت کا وقت آ جائے۔ جب کسی کی مہلت عمل ختم ہونے کا وقت آ جاتا ہے، تو اللہ کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا۔“ (ماخوذ ترجمہ قرآن مجید۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی)

قارئین کرام! آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ قرآن مجید نے منافقین کے لیے ایمان لا کر کفر کرنے جیسے انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اور منافقت کی جو کیفیات بلیغ انداز میں بیان فرمائی ہیں، ان سے ہمیں آئے روز واسطہ پڑتا ہے۔ بات بات پہ قسم کھانے والے آپ کو قدم قدم پر مل جائیں گے۔ وہ بہت لچھے دار گفتگو بھی کرتے ہیں اور اپنے ورزشی جسم کی نمائش بھی فرماتے ہیں۔ ان کے وعدوں اور معاہدوں میں منافقت کا رنگ غالب رہتا ہے۔ ہمارے اندر بھی منافقت کا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اس کے زہر کا تریاق حاصل کرنے کے لیے ہمیں ماہ رمضان میں تزکیۂ نفس پر خصوصی توجہ دینا اور غریبوں پر اپنا مال خرچ کرنا اور ہر لحظہ اللہ کی رضا کو اپنا مقصود بنا لینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments