مولانا وحید الدین: وہ عالم جن کی علمی فضیلت سے ان کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے بھی متاثر ہوئے

نیاز فاروقی - بی بی سی، نئی دہلی


ایک ایسے دور میں جب تعصب اور نفرت عام ہو، شاید یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ امن اور برادری کی بات کرنا ہی ایک مشکل کام ہے اور اسلامی سکالر مولانا وحید الدین خان امن اور برابری کے اپنے اس مستقل پیغام کی وجہ سے اپنے ناقدین میں بھی مقبول رہے۔

21 اپریل کو انڈیا میں وفات پانے والے مولانا وحید الدین خان کی عمر 96 برس تھی اور انھیں کووڈ 19 کی تشخیص کے بعد 12 اپریل کو دلی کے اپولو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے ان کی وفات پر ٹوئٹر پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں الہیات اور روحانیت کے معاملات پر بصیرت سے بھرپور علم کے لیے یاد کیا جائے گا۔ وہ برادری کی خدمت اور معاشرتی بااختیاری کے قائل تھے۔‘

انڈیا کے صدر رام ناتھ کوونڈ نے بھی مولانا وحید الدین خان کو خراج عقیدت پییش کیا۔

انھوں نے لکھا: ’پدم وبھوشن (ملک کا دوسرا بلند ترین شہری اعزاز) وصول کرنے والے مولانا وحید الدین نے معاشرے میں امن، ہم آہنگی اور اصلاحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔‘

مولانا وحید کون تھے؟

مولانا وحید الدین خان کی پیدائش ریاست اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں سنہ 1925 میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی زیادہ تر تعلیم ایک روایتی مدرسے سے حاصل کی۔

وہ تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی انڈیا میں شامل ہو گئے اور 10 سال تک اس کے رُکن رہے۔ وہ جماعت کے مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے لیکن نظریاتی اختلافات کی وجہ سے سنہ 1963 میں جماعت سے دور ہو گئے اور ’تعبیر کی غلطی‘ کے نام سے اپنی تنقید شائع کی۔

محقق عرفان احمد کے مطابق پہلے انھوں نے جماعت اسلامی کے ممبران کو بات چیت کے ذریعے اپنی نقطہ نظر سے آگاہ کیا لیکن انھوں نے مولانا وحید الدین سے اسے تحریری صورت میں لکھ کر پیش کرنے کو کہا۔ انھوں نے پاکستان میں مولانا مودودی کو اپنی تنقید بھیجی جس میں مودودی کے نظریے پر بھی تنقید کی گئی تھی۔

محقق پروفیسر عرفان احمد لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی نے اُن کی تنقید کا جواب نہیں دیا بلکہ جواب میں یہ لکھا: ’آپ کا مطالعہ آپ کو ایک سمت میں لے گیا ہے جس کے برعکس میرا مطالعہ مجھے دوسری جانب لے گیا ہے۔۔۔ اگر آپ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ میں نے دین کو مکمل طور پر غلط سمجھا ہے تو پھر آپ اس نقطہ نظر سے خود کو الگ کر لیں۔ جسے آپ صحیح سمجھتے ہیں اس کی مثبت تشہیر کریں مگر اگر آپ میری ترجمانی میں غلطیاں ظاہر کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ اپنی کتاب شائع کر سکتے ہیں۔‘

جب مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودی کو اپنی تنقید پر جواب دینے کے لیے زور ڈالا تو انھوں نے لکھا: ’آپ کا مکالمہ کرنے کا انداز یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو آپ کے نقطہ نظر کو قبول نہیں کرتا وہ جاہل اور غیر دانشمند ہے۔‘

مولانا وحید الدین نے اعتراف کیا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا انداز جارحانہ ہو لیکن ان کا واحد مقصد ’حق کی تلاش‘ تھا۔

مولانا وحید الدین اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تقریباً 200 کتابوں کے مصنف تھے اور انھوں نے قرآن کا ترجمہ بھی کیا۔ ان کے نظریاتی اور سیاسی خیالات سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی علمی فضیلت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔

کلکتہ کی عالیہ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد ریاض، مولانا وحید الدین کے سیاسی نظریے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک عالم تھے، بلاشبہ ایک عظیم عالم تھے۔‘

مولانا وحید الدین نے بابری مسجد تنازع پر مسلمانوں سے ایودھیا کی سرزمین پر اپنے دعوے کو ترک کرنے اور ہندو قدامت پسند تنظیموں سے اس کے عوض سماج میں امن و امان قائم کرنے لیے متھرا اور وارانسی کی متنازع مساجد سے اپنا دعویٰ ترک کرنے کی اپیل کی تھی۔

مولانا وحید الدین خان

سنہ 2004 میں وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حمایت کے لیے بنائی گئی ’واجپائی حمایت کمیٹی‘ کے ایک اہم رکن تھے اور مسلمانوں سے بی جے پی رہنما کو فتح یاب کرانے کی اپیل کی تھی۔

پروفیسر محمد ریاض کہتے ہیں کہ ’مولانا کی عمدہ علمی فضیلت کے باوجود میں اس تصویر کو نہیں بھلا پاتا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اور سنہ 2002 میں گجرات تشدد کے باوجود بھی وہ اس کے ذمہ دار افراد سے کیسے امن کے لیے پرامید ہو سکتے تھے۔‘

سینیئر صحافی محمد وجیہہ الدین کہتے ہیں کہ ’مسلمانوں نے مولانا کے فارمولے کو مسترد کر دیا کیونکہ بعض لوگ اسے ’ہتھیار ڈالنے‘ کے مانند دیکھتے تھے۔‘ لیکن ان کی سادگی اور رسائی سے کسی کو انکار نہیں تھا۔

وجیہہ الدین لکھتے ہیں کہ ’ان سے ملنا ایسا تھا جیسے کہ ایک صوفی سے۔ ڈھیلا ڈھالا کرتا پاجامہ یا اگر گھر پر ہوں تو لنگی، ان کے موٹے چشمے سے جھانکتی نظریں، ان کی پگڑی اور لمبی سفید داڈھی۔ وہ ایک روایتی شخص کی مانند تھے لیکن ان کے خیالات جدید تھے۔‘

وہ انتہا پسندی اور مقدس صحیفوں کی قدامت پسند ترجمانی کے خلاف تھے۔ اپنے مذہبی اور روحانی خیالات کا مکمل اظہار کرنے کے لیے انھوں نے سنہ 1970 میں دلی میں ’اسلامک سینٹر‘ قائم کیا۔

اس کے بعد سنہ 1976 میں انھوں نے ماہانہ رسالہ ’الرسال‘ کا آغاز کیا۔ یہ جریدہ، جو کہ مکمل طور پر ان کے مضامین پر مشتمل تھا، اردو زبان کی دنیا میں تیزی سے مقبول ہو گیا۔ ان کے مضامین لوگوں کو اسلام کے پُرامن چہرے کو سمجھانے، مسلمانوں میں اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے اور مثبت سوچ اور عمل کو فروغ دینے پر زور دیتے تھے۔

وجیہہ الدین لکھتے ہیں کہ ’ان کی موت سے انڈیا اور دنیا، سمجھداری کی بات کرنے والی ایک مضبوط آواز اور امن کا پیغام دینے والے ایک مبلغ سے محروم ہو گئی ہے جس نے اسلامی تعلیمات کو گاندھیائی اقدار کے ساتھ ملا کر تشدد اور نفرت کے خلاف جنگ کی۔‘

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ان کے عقیدت مندوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مولانا وحید کی وفات پر تعزیت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp