ملک دشمن عناصر کا پروپیگنڈا اور پاک بھارت کے تعلقات میں نیا موڑ


پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں جس کا اپنا آپ تک درست نہیں مگر وہ بے وجہ، فضول، حقائق سے برعکس یا کم معلومات کے تحت فوج پر تنقید کرنا اپنے شناختی کاڈر کی حد تک پاکستانی ہونے کے طور پر ضرور کرتا ہے، شناختی کاڈر کی حد تک کے پاکستانی کی ؤضاحت کرتی چلوں، بدقسمتی سے وطن عزیز میں چند افراد پر مشتمل گروہ شناختی کاڈر کی حد تک زبردستی کا پاکستانی ہے، ان کے دل ان ممالک کے لئے دھڑکتے ہیں جو اقامے کی حد محدود رکھتے ہیں، کچھ تو اتنے کم ظرف ہیں، جو مہمانوں تک کا لحاظ نہیں کرتے، وبائی دنوں میں انسانیت کو بالائے طاق پر رکھ کر اپنے ملک سے نکال کر سرحد پر کھڑا کرتے ہیں، مگر پھر بھی پاکستان میں مقیم چند ذہنی اسیر ان کے ہی کلمہ گو ہیں، ان کی سپاہ کے عاشق ہیں جن کے فوجی اپنے نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک کی سرحد پر جان گنوا دیتے ہیں، جن کے اپنے سائنس دان محفوظ نہیں ہیں۔ چند احمق اس ریاست کو محفوظ سر زمین گردانتے ہیں جبکہ اپنے رکھوالوں پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں۔

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان نے ایک نجی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں فوج کے خلاف بولنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ جس کو دیکھو وہ فوج کے خلاف بولنا شروع کر دیتا ہے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے تاکہ فوج کی وقعت کو کم کیا جائے۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو چلائی گئی، جس میں آم کے درختوں کو کاٹتے ہوئے دکھایا گیا، اس کو زبردستی فوج سے جوڑا گیا اور فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ، درحقیقت اس کا تعلق ملک ریاض کے ایک رشتہ دار سے تھا لیکن کیونکہ ہمارا نام نہاد میڈیا ملک ریاض سے اشہارات لیتا ہے، تو وہ اس کے خلاف زبان نہیں کھول سکتا لیکن کچھ عناصر ہر معاملے میں فوج کو ملوث کرتے ہیں۔

لیکن فوج نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ملک کو دہشت گردی سے پاک کرایا۔ اب دشمن کا یہ منصوبہ ہے کہ پاکستان آرمی کو پروپیگنڈے کے ذریعے کمزور کیا جائے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر پاکستان آرمی کو کمزور کیا گیا تو اس ملک کو کبھی بھی نیلام کیا جا سکتا ہے۔ ”

حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی جانب سے اپنا گھر ٹھیک کرنے کا بیان سامنے آیا جسے سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم نواز شریف نے غلط رنگ دیا، ان کے میڈیا سیل کے عناصر نے بھی سوشل میڈیا پر خوب رنگ جمانے کی کوشش کی اور اسے ڈان لیکس سے جوڑنے کی حماقت کی گئی جبکہ آرمی چیف کا بیان ذرائع پر تھا، یہ کسی کی فیڈنگ کے ذریعے سے نہیں آیا تھا اور یہ یک سطری بیان بھی نہیں تھا بلکہ مکمل تقریر تھی جس کی ایک سطر کو اپنے ناپاک عزائم کے تحت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ڈان لیکس سے مماثلت دینے کی کوشش کی گئی جو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔

ڈان لیکس ہے کیا ہے؟

انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سرل المیڈا کی جانب سے چھ اکتوبر 2017 کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس سے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر عسکری اور سیاسی قیادت میں اختلافات سامنے آئے جس پر سیاسی اور عسکری قیادت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے قومی سلامتی کے منافی قرار دیا۔ اسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔

واضح رہے اس قسم کے اجلاس ان کیمرہ نہیں ہوتے نہ ہی ان کی پریس ریلیز جاری کی جاتی ہے، اگر کوئی خبر میڈیا کو دی بھی جاتی ہے تو ادارہ رسمی سی پریس ریلیز جاری کرتا ہے یا پھر ترجمان کے ذریعے پریس بریفنگ دی جاتی ہے، یعنی اس خبر کو لیک کرنا مجرمانہ اقدام ثابت ہوا ہے جسے اس وقت کے وزیراعظم اور ان کے تنخواہ دار ماننے سے انکاری تھے بلکہ خبر کو ہی من گھڑت قرار دے رہے تھے ۔ آج آرمی چیف کی تقریر کی ایک سطر کو ڈان لیکس سے جوڑ رہے ہیں ، اس کا کیا مطلب ہوا؟ یقیناً پڑھنے والوں کے لئے سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

جو شخصیات کسی ادارے کا فیس ہوتی ہیں ، ان کی تقاریر اور بیانات پالیسی کے تحت ہوتے ہیں جو ان کا تھنک ٹینک مرتب کرتا ہے، ہاں یہ سچ ہے ہم مقبوضہ کشمیر کو کبھی فراموش نہیں کرتے نہ ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کو آزادی اور خودمختاری دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان بھارت کے مظالم کو اجاگر کرنے میں کامیاب بھی ہو رہا ہے ، اسی لئے اب بین الاقومی فارمز پر بھارت کو خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کشمیر کو آزادی دلانے کی جدوجہد کے ساتھ ہم گرے لسٹ سے نکل کر مثبت سمت میں بھی آنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کا اقتصادی پہیہ چل سکے اور ہم معاشی و صعنتی اعتبار سے مستحکم ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہو جائیں۔

آرمی چیف کے بیان پر ہرزہ سرائی کرنے والے ذاتی مفاد کے تحت یہ کام سرانجام دے رہے ہیں کیونکہ اگر ان کے دل میں پاکستان ہوتا تو آج ملک میں معاشی بحران نہ ہوتا اور ان کی نسلیں راج نہ کر رہی ہوتیں ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے عرصے تک قومی خزانے کو لوٹا اور جب جواب مانگا گیا تو سپریم کورٹ پر حملہ کرنے سے باز نہ آئے، ججز کو بغض سے بھرا کہا ، انہیں زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دیں، قرب قیامت تو دیکھیں جن کی نسلیں لوٹ کے مال کے سونے کے چمچے لے کر پیدا ہوئی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔

یہی حال بعض ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کا ہے جو روز فوج پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں پھر کہتے ہیں پاکستان میں آزادی رائے پر قدغن ہے،ذرا پڑوسی ملک بھارت کی ہی مثال لے لیں جہاں کا میڈیا مکمل طور پر مودی کے کنٹرول میں ہے ، جس کی وجہ سے نہ وہ آزادی کے پروانوں کشمیریوں کی خبر نشر کرتے ہیں نہ ہی کسان احتجاج کو کوریج دیتے ہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر بھارت کی جعلی خبروں کا نیٹ ورک بے نقاب ہوا ہے، دسمبر 2020 میں یورپی گروپ نے انڈین کرونیکلز کے عنوان سے رپورٹ جاری کی۔ ای یو ڈس انفو لیب رپورٹ کے مطابق بھارتی نیٹ ورک 15 سال تک یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہوتا رہا، جعلی خبروں، جعلی این جی اوز کے نیٹ ورک کو دہلی سے سری وستوا گروپ کنٹرول کرتا تھا۔

سری وستوا گروپ کا ہدف عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنا تھا، بھارتی نیٹ ورک 750 جعلی مقامی میڈیا اور 10 مشکوک و پراسرار این جی اوز چلاتا رہا، بھارتی نیٹ ورک پاکستان مخالف مقاصد کے لیے مردہ این جی اوز کو یو این میں استعمال کرتا رہا۔

ای یو ڈس انفو لیب رپورٹ کے مطابق انڈین نیٹ ورک نے یورپی یونین کا روپ بھی دھارا، انڈین نیٹ ورک نے جعلی میڈیا کا مواد بڑھا چڑھا کر حقیقی میڈیا تک پہنچایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی نیٹ ورک نے یورپی پارلیمنٹ کے سابق صدر مارٹم شلز بارے بھی جھوٹ گھڑا، ہندوستانی نیٹ ورک نے یو این انسانی حقوق کونسل کی مردہ این جی او کینرز انٹرنیشنل کو دوبارہ زندہ کر کے پیش کیا۔

ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ کے مطابق انڈین نیٹ ورک نے بابائے عالمی انسانی حقوق لوئیز سوہن کو بھی دوبارہ زندہ کر دکھایا، بھارتی نیٹ ورک نے لوئیز کی 2007 میں یو این انسانی حقوق کونسل میں شرکت ظاہر کی جبکہ لوئیز سوہن کا 2006 میں انتقال ہو گیا تھا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ نیٹ ورک نے آنجہانی لوئیز کو 2011 میں واشنگٹن میں ایک تقریب میں شریک ظاہر کیا، بھارتی نیٹ ورک نے کئی جعلی این جی اوز، تھنک ٹینکس بھی قائم کیے، ای یو ڈس انفو لیب رپورٹ کے مطابق بھارتی نیٹ ورک یورپی پارلیمنٹ اور یو این کے سائیڈ ایونٹس منعقد کراتا، بھارتی سازشی جعلی خبروں پر ممبنی نیٹ ورک نے 550 جعلی این جی اوز، میڈیا اور یورپی پارلیمنٹ کے غیر رسمی گروپ قائم کیے۔

پاکستان، بھارت کے تعلقات میں ایک بار پھر خوشگوار دستک

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک کے چار بڑی جنگوں جبکہ بہت ہی سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ 1971ء اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگیں کشمیر کی آزادی کے حوالے سے رونما ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ جو 1980 میں منعقد ہوا مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا۔ 2003 میں بس سروس بے سود رہی، 2007 کا سمجھوتہ ٹرین کا سانحہ جس میں پاکستان کا بھاری جانی نقصان ہوا اس نے نفرتوں کو مزید ہوا دی، پھر بھارتی پارلیمان، ممبئی، پٹھان کوٹ، اڑی حملوں میں بنا تحقیق کے پاکستان پر بھارتی الزام تراشی دونوں ممالک میں دوری کا سبب بنی۔

پاکستان اور ہندوستان ایک بار پھر امن کے لئے کوشاں ہیں جس میں پہلے ہمیشہ کی طرح پاکستان نے کی ہے، ماضی میں بھی پاکستان، ہندوستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھتا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی امن کی خواہش، کمزوری یا خوف نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کی بہتر فلاح و بہبود ہے۔ اس کی ماضی قریب کی بہترین مثال 2019 ہے جب ہماری فوج کے غیور جوانوں نے اللہ کی مدد سے اپنے دفاع کے لئے بھارت کے جنگی طیاروں کو اپنی حدود میں آتے ہی مار گرایا اور ان کے پائلٹ کو جو ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے آیا تھا ، اسے خیر سگالی کے طور پر چائے پلا کر اس کے ملک واپس بھیجا۔

ماضی بعید میں اس حوالے سے یہ مثال بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جب یو این او میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم سے ہاتھ ملایا تھا، یہ دونوں اور اس سمیت دیگر مثالیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ہی امن کا پیامبر ثابت ہوا ہے جبکہ ہندوستان بے جان غباروں اور بے زبان کبوتروں پر جاسوسی کا الزام لگا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی مضحکہ خیز حرکات کرتا رہا ہے۔

ہم امن کی آشا جیسی مہم میں بھی بھارت کی جانب سے نفرت کی بھاشا کے معاملات دیکھ اور سن چکے ہیں، ان کے صحافی اور سابق فوجی افسران جس طرح پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

رواں سال کے گزشتہ ماہ مارچ میں شہر اقتدار میں نیشنل سکیورٹی ڈویژن نے ڈائیلاگ منعقد کیا۔ ڈائیلاگ کا موضوع تھا کہ پاکستان جیو پولیٹکس سے جیو سکیورٹی کی جانب عازم سفر ہے۔ یاد رہے یہ اپنی نوعیت کی پہلی مکالمی نشست نہیں تھی، اس سے قبل جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، تو اس وقت کوئٹہ میں ای سی او سمٹ کیا گیا تھا۔

پاکستان اپنی اقتصادی نظام میں بہتری لانے کے سنجیدہ ہے جو ہمارا بنیادی حق ہے، اسی لئے سی پیک کی فوری مکمل تکمیل اور فعال ہونے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے جو ملک دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ پاکستان خطے کے امن کے لئے اور انسانی ہمدردی کے تحت افغانستان میں قیام امن کے لئے خواہاں اور متحرک ہے، پاکستان فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے ایران سے بھی بہترین تعلقات چاہتا ہے ، البتہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر باڑ لگانا ہمارا دفاعی حق ہے کیونکہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس جاسوس ایران کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے مارخور کی گرفت میں آیا تھا، اس لئے ہم وہاں باڑ لگاتے ہیں جبکہ ایران فائرنگ کرتا ہے ، اس پر بھی پاکستان خاموش ہے جس کی وجہ ہماری کمزوری نہیں ہے بلکہ امن کو موقع دینا ہے۔ البتہ اگر خدا نخواستہ جانی و مالی نقصان ہوا تو دفاع کرنا ہمارا مکمل حق ہے۔

پاکستان کا دل مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے، ہر ایک کی طرح بھارتی تحویل میں مقبوضہ وادی کے عوام کو بھی آزادی کا سانس لینے کا مکمل حق حاصل ہے، پاکستان مظلوم کشمیریوں کی بھارتی تحویل سے بازیابی کے لئے عالمی فورمز پر آواز اٹھاتا ہے اور ظالم کو بے نقاب کرتا ہے، ان شاء اللہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک پاکستان اپنا فرض ادا کرتا رہے گا،اگر بھارت کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس کا حق دے تو خطے میں امن یقینی ہے، روزگار کے مواقع، سیاحت کا فروغ اور دیگر مثبت اقدامات قیام امن کی بحالی سے ہی ممکن ہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کا نفرت انگیز رویہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم نہ ہونے میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے، اگرچہ ایک ماہ قبل سے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان مثبت پیش رفت کی خبریں ہیں مگر مقبوضہ کشمیر اور سیاچن کا مسئلہ غور طلب ہے، یہ وہ نکات ہیں، جس پر بھارت بات نہیں کرنا چاہتا جبکہ ہم سیاچن کے موضوع پر بھی تفصیلی اور نتیجہ خیر بات چیت اور عمل درآمد چاہتے ہیں، دوسرا سب سے اہم نکتہ وادی کشمیر کے حق خود ارادیت کے نعرے کا ہے، جس پر ہم کشمیریوں کے ہم آواز ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان اور ہندوستان نے جب جب بات چیت کی میز تک آئے ہیں، سیاچن اور کشمیر کے موضوع پر آ کر بات چیت کا ماحول، محاذ آرائی میں تبدیل ہوا ہے، تاہم اگر اب ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو ان نکات پر مثبت پیش رفت کی یقین دہانی کرائی گئی تو یہ صورتحال ماضی کے برعکس خوش آئند ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments