ایک سرمایہ دار جس نے کسی ملازم کو نہیں نکالا


آپ یہ کالم پڑھ لیں تو مجھے ضرور بتائیں کہ آپ نے جب اس کالم کا آخری فقرہ پڑھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو کا موتی تھا کہ نہیں؟ یہ آنسو سوگواری کا بھی ہو سکتا ہے اور خوشی کا بھی اس لیے گو اس کالم کے کرداروں سے آپ کا کچھ لینا دینا نہیں لیکن آپ ہیں تو انسانوں کے سمندر کا ہی ایک قطرہ۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سچ سمجھ کر کپتان کی دامے درمے قدمے اور سخنے مدد کی جس کی وجہ سے اقتدار کا ہما کپتان کے سر سجا۔ اقتدار میں آنے کے بعد کپتان نے نوکریاں تو نہیں دی بلکہ الٹا برسر روزگار نوجوانوں کو بے روزگار کر دیا۔

ندیم عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا ہے انٹر کا طالب علم ہے گھر کا واحد فرد کفیل ہے اسلام آباد کے ایک بڑے شاپنگ مال میں ایک برانڈڈ شاپ پر کام کرتا تھا۔ گزری شب اس نے مجھے کال کی اور روہانسی آواز میں بولا کہ سر دکان کے مالک نے مجھے نوکری سے نکال دیا میرے لیے کہیں روزگار کا بندوبست کریں تاکہ جسم و جاں کے رشتے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی باقی رہے میں اسے کوئی تسلی بخش جواب تو نہ دے سکا مگر سرمایہ دار کے رویے نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

سرمایہ دار کبھی بھی اپنا نقصان برداشت نہیں کرتا بھلا وہ کیوں دھندا کم ہونے پر ملازمین کو کام پر رکھے۔ لینن سرمایہ داروں کے بارے میں کہتا ہے کہ جب وہ پھانسی کے پھندے پر جھول رہے ہوتے ہیں تو وہ اس وقت بھی یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ رسی جس سے پھندا بنایا گیا ہے اس پر کتنا منافع کمایا جا سکتا تھا۔

کورونا کی مرض نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ پڑوسی دیش بھارت میں روزانہ سینکڑوں اموات ہو رہی ہیں ہمارے حکمرانوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر معاشرتی پابندیاں سخت کر دی۔ ہوٹل، ریستوران کی ان ڈور کے ساتھ ساتھ اؤٹ ڈور سروس پر بھی پابندیاں لگا دی گئی جس کی وجہ سے ریستوران مالکان نے کارکنوں کو فارغ کر دیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے۔

کچھ سرمایہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر خوف خدا کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے وہ اپنے سے زیادہ کارکنوں کا خیال رکھتے ہیں۔ صاحبو ایک اللہ والا سرمایہ دار جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں سیفرون کے نام سے مقبول ترین ریستوران چلاتا ہے اس کی پانچ برانچز میں لگ بھگ پانچ سو لوگ کام کرتے ہیں۔

پرلے روز سیفرون جانا ہوا نماز عشا کی ادائیگی سیفرون ریستوران کے اندر واقع مسجد میں کی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد سیفرون ریستوران کے جی ایم این این عباسی سے ملاقات ہو گئی۔ سلام مسنون کے بعد سیفرون کے مالک زاہد صاحب کے متعلق پوچھا تو جی ایم نے بتایا کہ آج کل وہ خال خال چکر لگاتے ہیں۔ پوچھا ابتلا کے دنوں میں کیا آپ نے ریستوران سے ملازمین کو فارغ کیا ہے تو ترنت جواب ملا ایک ملازم کو بھی فارغ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا زاہد صاحب نے سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ کسی ملازم کو کام سے نکالنا نہیں اللہ نے ہمارے ساتھ پانچ سو لوگوں کا نہیں بلکہ پانچ سو خاندانوں کا رزق لگا رکھا ہے۔ ان میں سے کہیں ایسے لوگ ہیں جو اپنے اپنے خاندان کے فرد واحد کفیل ہیں۔ کسی کے بچے پڑھ رہے ہیں تو کسی کے والدین ضعیف ہیں کسی کی بیٹیاں جوان ہیں تو کسی بہنیں ہر ایک اپنا خواب رکھتا ہے۔ اچھے دنوں میں جب ہم لاکھوں روپے روزانہ کماتے ہیں تو یہ لوگ ہمارا ساتھ دیتے ہیں ان کی وجہ سے ہمارا کام چلتا ہے آج ابتلا کا وقت ہے تو میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ ان لوگوں کو فارغ کر دوں۔ کاروبار نفع و نقصان کا نام ہے۔ جب میں نفع کما رہا ہوتا ہوں تو اس میں ان لوگوں کو شریک نہیں کرتا آج نقصان ہو رہا ہے تو میں اپنے ایمپلائز کو نکال دوں یہ ممکن نہیں۔ کڑا وقت گزر جائے گا۔ ہاں ہم نے کچھ لوگوں کو چھٹی دی ہے مگر تنخواہ ان کے گھر بھجوا دیں گے۔ دیر سویر ہو جاتی ہے۔

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ حقوق اللہ کی قضا ہو سکتی ہے مگر حقوق العباد کی قضا نہیں۔ آپ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں تو آپ کے سامنے گاڑی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے تو حکم ہے کہ آپ نماز توڑ کر لوگوں کی جانیں بچائیں کیونکہ اگر اس وقت کوئی جان چلے گئی تو وہ واپس نہیں آئے گی مگر آپ نماز نماز قضا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے معاملے میں درگزر کر لے گا مگر حقوق العباد کے معاملے میں کبھی معاف نہیں کرے گا۔

این این عباسی جب مجھے یہ بتا رہے تھے تو میرے ذہن میں اس سرمایہ دار کے متعلق طرح طرح کے خیالات گردش کر رہے تھے جس نے ندیم کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔ اس نے ندیم سے اس کی مجبوریاں جاننے کی بھی کوشش نہیں کی تو دوسری طرف اس سرمایہ دار کا مثبت رویہ جس نے اپنے ایک خاکروب کو بھی فارغ نہیں کیا دنیا کا نظام شاید انہی نیک لوگوں کی وجہ سے چل رہا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments