موٹیویشنل اسپیکرز دور حاضر کے عامل بابے ہیں


موٹیویشنل سپیکرز اکثر اس طرح کے سوالات اچھالتے ہیں، جن کے بارے میں اس وقت ایسا لگتا ہے کہ اس سے زیادہ ضروری سوال تو روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ان کے جواب بھی عموماً لوگوں کو معلوم نہیں ہوتے۔ بادی النظر میں سوال اور مقرر دونوں بے ہودہ معلوم ہوتے ہیں۔ جب جواب پتہ چلے تو بال (اپنے اور مقرر کے بھی) نوچنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ یہ ’علمی بحثیں‘ اکثر درج ذیل طرح کی ہوتی ہیں :

وہ کیا چیز ہے جس کی خدا کو بھی ضرورت ہے؟
وہ کیا شے ہے جو پاس ہو تو جنازہ نہیں ہوتا اور اگر نہ ہو تو نکاح نہیں ہوتا؟
کون سی چیز بہت لمبی ہو سکتی ہے مگر اس کا سایہ نہیں ہوتا؟

اب اگر پتہ چلے کہ ان کے جوابات بالترتیب نام، روح اور راستہ ہیں تو دنیا سے اعتبار اٹھتا ہوا محسوس ہوا کہ نہیں؟ لیکن یہ سب پیسے کا چکر ہے بابو بھیا! اسی سے سپیکرز کی دال روٹی چلتی ہے۔ پہلے پہل مقولے عام طور پر پرانے ڈائجسٹوں کے کونے کھدروں پر اکثر مل جایا کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی کمیابی نے عوام کو ’نادر معلومات‘ سے دور کر دیا ہے اور وہ اب وہی باتیں موٹیویشن کے نام پر سننے کے لوگ ہزاروں روپے دیتے ہیں۔

البتہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وار الٹا پڑ جاتا ہے۔ جس طرح انگریزی محاورے کے مطابق ہر کتے کا اچھا دن آتا ہے، ویسے ہی برا ٹائم بھی تاک میں ہوتا ہے۔ جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، ویسے ہی ایک بے وقوف کا علاج ذرا بڑا بے وقوف ہے۔

یہی ہوا ایک موٹیویشنل اسپیکر کے ساتھ۔ بے چارے کی ماڑی قسمت کہ ہماری کلاس کو موٹیویٹ کرنے آ پہنچا۔ یہاں اسے میرا دوست ’تھیٹا‘ ٹکر گیا۔ وہ کتابی کیڑا ہے۔ اوپر سے سالے کا دماغ نہیں، سپر کمپیوٹر ہے۔ ہر تاریخ دن، گھنٹے تک اور کوٹیشن کہنے والے کے شجرے تک سے واقف ہوتا ہے۔

سپیکر نے سوال اچھالا کہ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے؟

چند لوگوں نے غلط جواب دیے۔ یہ درمیان میں بیٹھا تھا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ جب سپیکر خوش ہو کر یہ کہتا کہ ’اچھا، تو کسی کو معلوم نہیں‘۔ تب یہ جھٹ سے ہاتھ کھڑا کر دیتا۔

سپیکر کو طوعاً و کرہاً اس سے پوچھنا ہی پڑتا اور یہ درست جواب دے کر اس کو ون لائنر سے محروم کر دیتا۔

یہاں بھی اس نے آخر میں ہاتھ اٹھایا اور کہہ دیا کہ ’مسلمان اللہ کو مانتا ہے جبکہ مومن اللہ کی مانتا ہے‘

سپیکر اپنا جملہ اس کے منہ سے سن کا ہکا بکا رہ گیا اور اس کے منہ سے فقط اتنا ہی نکل سکا کہ ’ہی از رائٹ! پلیز کلیپ فار ہم!‘

لیکن ایسا صرف ایک دو بار ہی ہونا تھا۔ یہ تو ہر سوال کا جواب رٹے بیٹھا تھا۔ سو، جب سپیکر نے اپنا چوتھا جملہ بھی ضائع جاتا دیکھا تو سٹیج پر گھنٹے بھر سے دائیں بائیں گھوم گھوم کر بنی ہیئت کذائی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ

’ جے سارے جواب توں ہی دینٹرے تے فیر اے باندر آلا ناچ وی توں ای کر لے‘
(اگر سارے جواب تم نے ہی دینے ہیں تو یہ میرے والا بندر ناچ بھی تم ہی کر لو )

اس واقعے سے یہ مت سمجھیں کہ ہمیں ان مقررین سے کوئی خصوصی پرخاش ہے۔ بات یہ ہے کہ آج کل ہر کامیاب شخص Success اسٹوریز پر مبنی کتب شائع کرانا اپنا اولین فرض گردانتا ہے۔ یہ داستانیں عام طور پر بلنڈرز ہوتے ہیں۔ جو بڑے آدمی سے منسوب ہونے کی وجہ سے خواہ مخواہ ہی کیچی کیچی (catchy) سے لگنے لگتے ہیں۔

اب سینکڑوں لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر انہی کہانیوں کو دہرا دینا ہی اگر موٹیویشن ہے تو یہ کام کیا آپ اور میں نہیں کر سکتے؟ عوام کو کامیاب لوگوں کی محض کامیابی کے قصے سنانا دراصل شارٹ کٹ سکھانا ہے۔ محنت، اوریجنلٹی اور سڑگل سے آنکھیں چرانا ہے۔ شارٹ کٹ کی خواہش جرائم کو جنم دیتی ہے۔ یاد رکھیے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments