چینی کے حصول کی جنگ اور کورونا کے وار


اسے چینی خریدنی تھی ، پہلے تو سستے بازار میں کئی گھنٹے تک چینی کی آمد کا انتظار کرایا گیا۔ چینی آئی تو ایک طویل قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا، وہ خوش تھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے 100، 110 روپے کلو تک ملنے والی چینی وہ آج 65 روپے کلو خریدے گا مگر اس سے بھول ہو گئی،  صبح دیہاڑی پر آتے ہوئے وہ شناختی کارڈ لانا بھول گیا تھا۔

کام نہ ملا تو چینی لینے پہنچ گیا مگر ایک سادہ دیہاتی کو کیا معلوم کہ ریاست مدینہ میں ایک کلو چینی خریدنے کے لیے شناختی کارڈ کا ہونا کتنا لازم ہے ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہر موقع پر آئین، قانون اور اصول اپنی ضرورت اور مفاد کے پاؤں تلے کچل دینے والی سرکاری مشینری ایک کلو چینی کے لیے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔

کئی گھنٹوں کے انتظار اور قطار میں کھڑے رہنے والا شخص نئے پاکستان میں اس لیے ایک کلو چینی سے محروم ہو گیا کیونکہ اس کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا اور یہاں تو شناختی کارڈ چیک کر کے ایک کلو چینی دینے کا احسان کرنے کے بعد انگوٹھے پر پکی سیاہی کے نشان بھی لگائے جا رہے تھے کہ کہیں یہ بھوکے ننگے اور غریب لوگ چینی لینے کے لیے دوبارہ لائن میں نہ لگ جائیں۔ قربان جاؤں سستی چینی بیچنے کی شاندار پالیسی بنانے والوں کو سوچ پر۔

ایک کلو چینی کی جنگ جیتنے کا دوسرا محاذ یوٹیلٹی اسٹورز ہیں ، خوش قسمتی سے یہاں اگر چینی مل بھی جائے تو 70 روپے کلو کے حساب سے دو کلو چینی خریدنی پڑتی ہے مگر یہاں شرائط مختلف ہیں ہر یوٹیلٹی سٹور کی اپنی حکومت اور اپنے اصول ہیں ۔ کہیں دو کلو چینی کے ساتھ ایک کلو گھی ، کہیں ان دونوں کی خریداری کے ساتھ 100 سے دو سو کی خریداری لازم ، کہیں چینی کے ساتھ 500 کی خریداری ۔ سوال تو یہ ہے کہ جس کی ضرورت محض ایک کلو چینی ہو یا جس کی سکت صرف ایک کلو چینی خریدنے کی ہو وہ یوٹیلٹی سٹورز کی ڈیمانڈ کیسے پوری کرے اور چینی کے لیے زیادہ اشیاء کیوں خریدے اور کیسے خریدے ؟

یہ تو صورتحال ان سستے رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز کی ہے جہاں حکومت نے اربوں روپے کی سبسڈی دے کر عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اگر اوپن مارکیٹ سے کچھ خریدنا پڑ جائے تو خود کو گروی رکھنا پڑتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اب حیرت نہیں ہوتی بلکہ عادت ہو گئی ہے ، ہمیں اپنی، اردگرد کے لوگوں کی اس معاشرے اور حکمرانوں کی سوچ کا مکمل اندازہ ہے ، ہم ایک دوسرے کے رویوں سے مکمل واقف ہیں ، اس لیے حیرت نہیں ہوتی۔

رمضان المبارک شروع ہوا تو مجھے معلوم تھا ، آپ کو بھی معلوم تھا بلکہ ہم سب کو معلوم تھا کہ ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ، ایسا ہی ہوا رمضان المبارک شروع ہوا تو عبادتیں بھی بڑھ گئیں اور قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ ہم کتنے پکے سچے اور کھرے مسلمان ہیں ، ہم ثواب بھی خوب کماتے ہیں اور منافع بھی بلکہ ہم ثواب سمجھ کر منافع کماتے ہیں اور منافع سمجھ کر ثواب کماتے ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے ، اس کی حقیقت تو نہیں معلوم مگر منافع خور عوام کے خلاف ضرور کارروائی کر رہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو ایک کلو چینی کے لیے گھنٹوں انتظار اور طویل قطار دیکھ کر جھرجھری سی آ جاتی ہے، یقیناً ایک کلو چینی سے 10 یا 15 روپے بچتے ہیں مگر اس بچت کے لیے لوگ جس طرح کی اذیت ناک صورتحال سے دوچار دکھائی دیتے ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ملک میں غربت کی شرح کس نہج پر جا پہنچی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ملک میں بھوک ، غربت اور بے روزگاری کے پیچھے سابقہ حکمرانوں کی کارستانیاں ہیں مگر موجودہ حکومت کی اڑھائی برسوں کی سب سے بہترین کارکردگی 65 روپے کلو چینی ہے ، جس کی خریداری کے لیے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہو کر شناخت پریڈ کرانا پڑتی ہے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ملک کورونا کی انتہائی خوفناک تیسری لہر کی زد میں ہے ، جس کی شدت کا اندازہ ہمسائیہ ملک بھارت کی روز بروز بگڑتی صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ”جہاں ایک طرف ہسپتالوں میں داخل مریض آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں ، وہیں بھارت میں روز بروز کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم ہو رہا ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر تین لاکھ سے زائد افراد کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ تین ہزار کے قریب روزانہ اموات ہو رہی ہیں۔

بھارت میں تباہ کن صورتحال کی سب سے بڑی وجہ عدم احتیاط ہے۔ وطن عزیز پاکستان بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جہاں آکسیجن کا استعمال 90 فیصد ہو چکا ہے جبکہ آکسیجن فراہم کرنے والے کمپنیوں نے بھی صورتحال کی سنگینی سے خبردار کر دیا ہے ۔

دوسری طرف حسب روایت آکسیجن کی منہ مانگی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ عوام کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور حکمران سنجیدہ اقدامات سے دور دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کورونا کے مثبت کیسز کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ شرح اموات میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے فوج کو طلب کیا گیا ہے۔ حالات مسلسل لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں۔ عوام نے حالات کی سنگینی کا احساس نہیں کیا تو صورتحال کہیں زیادہ سنگینی سے دو چار ہو سکتی ہے۔

ایسی صورتحال میں ایک کلو چینی کے لیے لوگوں لمبی قطاریں اور کہیں لوگوں کا جمگٹھا دیکھتا ہوں تو یہ سوچتا رہ جاتا ہوں کہ ایک کلو سستی چینی کہیں ان غریب لوگوں کو مہنگی نہ پڑ جائے کیونکہ جہاں حکومت کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے بظاہر سختی کر رہی ہے مگر یہاں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ رمضان بازار میں 65 روپے کلو چینی دے کر اپنی کارکردگی دکھانے والی حکومت اوپن مارکیٹ میں اپنی کارکردگی دکھائے تاکہ شناختی کارڈ دکھائے اور انگوٹھوں پر پکی سیاہی لگوائے بغیر پکے ریٹ پر بازار سے باآسانی چینی مل سکے ۔ یاد رہے پیٹ کے مقابلے سے جان چھوٹے گی تو کورونا کا مقابلہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments