جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: حکومت کی مکمل قانونی شکست


سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے کثرت رائے سے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نظر ثانی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف بی آر کو ہر قسم کی کارروائی سے روک دیا ہے۔ چار کے مقابلے میں چھ ججوں کی رائے پر مشتمل مختصر حکم میں ایف بی آر یا کسی دوسرے فورم پر ہونے والی ہر قسم کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان رپورٹس کو سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی بھی دوسرے فورم پر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔

سپریم کورٹ کا دس رکنی بنچ اس سے قبل جون 2020 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے چکا تھا تاہم اسی بنچ نے سات تین کی اکثریت سے ایف بی آر اور انکم ٹیکس حکام کو تین ماہ کے اندر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے مالی معاملات پر رپورٹ تیار کر کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ ’اگر سپریم جوڈیشل کونسل ان معلومات کی روشنی میں سمجھے کہ لندن میں جائیداد خریدنے کے لیے پیسے بھجوانے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کردار ہے تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی عمل میں لا سکتی ہے‘ ۔ اب اکثریتی حکم میں اس حصہ کو تبدیل کرتے ہوئے ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس کی ہر قسم کی کارروائی کو غیر قانونی اور ناقابل استعمال قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد جسٹس عیسیٰ کے خلاف حکومت اور صدارتی ریفرنس میں عائد کیے گئے تمام الزامات مسترد کر دیے گئے ہیں۔

یہ فیصلہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہی قانونی فتح نہیں ہے بلکہ اس میں یہ اصول بھی طے ہوا ہے کہ حکومت کسی ناپسندیدہ جج کو عدالت سے ہٹانے کے لئے غیر قانونی طریقے اختیار کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اب تفصیلی فیصلہ میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ناکافی شواہد کی بنیاد پر ریفرنس تیار کرنے اور ان کے خلاف میڈیا میں کردار کشی کی مہم چلانے والے حکومتی عہدہ داروں کی گرفت کرنے کے حوالے سے کیا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ عدالت عظمی اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد کرچکی تھی تاہم قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ دوبارہ ایف بی آر اور انکم ٹیکس حکام کے حوالے کر کے دراصل صدارتی ریفرنس مسترد ہونے کے بعد بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا امکان باقی رکھا گیا تھا۔ اس طرح اس فیصلہ کو ایک تیر سے دو شکار کے مماثل سمجھا جا رہا تھا۔ ایک طرف فل بنچ نے حکومت کے متعصبانہ اور بے بنیاد ریفرنس کو مسترد کیا لیکن قاضی فائز عیسیٰ کو بدستور کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ نظر ثانی کی اپیل کے دوران قاضی عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے یہ نکتہ خاص طور سے اٹھایا تھا کہ نام نہاد احتساب کی تلوار بدستور ان کے سر پر لٹک رہی ہے حالانکہ وہ اور ان کی اہلیہ اپنے تمام مالی معاملات کی تفصیلات شواہد کے ساتھ عدالت کو فراہم کرچکے ہیں۔

جون 2020 کے فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل کرنے والوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹ بھی شامل تھیں۔ آج جاری ہونے والے حکم میں دس رکنی بنچ کے چھ ارکان نے نظر ثانی کی تمام درخواستیں منظور کر لیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ نے ذاتی حیثیت میں جو پٹیشن دائر کی تھی اسے بنچ میں مساوی تعداد میں ججوں نے قبول اور مسترد کیا جس کی وجہ سے ان کی درخواست مسترد تصور کی گئی ہے۔ تاہم اس سے معاملہ کی نوعیت اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پوزیشن صاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی اہلیہ اور دیگر درخواستوں میں بھی عیسیٰ خاندان کے مالی معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور محکمہ انکم ٹیکس کو بھجوانے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی درخواست ہی کی گئی تھی جو منظور کرلی گئی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی ووٹ کی وجہ سے مسترد ہوئی ہے حالانکہ انہوں نے اسی قسم کی باقی سب درخواستوں کو قبول کرنے کے فیصلہ کی حمایت کی ہے۔ اس کی وجہ ان کا شروع سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابل سماعت نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی جج خود ہی عدالت میں مدعی نہیں ہو سکتا۔ جون 2020 میں بھی انہوں نے یہی موقف اختیار کرتے ہوئے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

نظر ثانی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ سپریم کورٹ بہت کم معاملات میں نظر ثانی کی درخواستوں پر اپنے فیصلے تبدیل کرتی ہے کیوں کہ عملی طور سے عدالت کو تسلیم پڑتا ہے کہ پہلے فیصلہ میں اس سے غلطی سرزد ہوئی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اپنی غلطی تسلیم کر کے عدالت عظمی کے ایک جج کو ریلیف دیا ہے۔ یہ فیصلہ حکومت کی مکمل عدالتی شکست کا سبب بنا ہے۔ حالانکہ نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران بھی حکومتی وزیر جسٹس عیسیٰ کی توہین کرنے اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے۔ جس وقت جسٹس عیسیٰ اپنے کیس کی براہ راست براڈ کاسٹنگ کی درخواست پر دلائل دے رہے تھے تو وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ’ایک ہفتے سے سپریم کورٹ کے ایک انڈر ٹرائل جج کی تقریریں سن رہے ہیں۔ اگر جواب دیا تو دکھ ہوا سے، توہین ہو گئی تک کے بھاشن آ جائیں گے۔ محترم اگر آپ کو بھی اپنے گاڈ فادر افتخار چوہدری کی طرح سیاست کا شوق ہے تو مستعفیٰ ہو کر کونسلر کا الیکشن لڑ لیں۔ مقبولیت اور قبولیت دونوں کا اندازہ ہو جائے گا‘ ۔

جسٹس عیسیٰ کا درخواست گزار کے طور پر یہی موقف تھا کہ ان کے خلاف سرکاری عہدیداروں نے میڈیا پر کردار کشی کی بھرپور مہم چلائی ہے اس لئے عدالتی کارروائی کے دوران ان کا موقف بھی بلا کم و کاست عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی لیکن بیگم قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر اب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ عدالت عظمی کے کسی جج کو عدالت میں دیے گئے دلائل کی بنیاد پر ’انڈر ٹرائل جج‘ قرار دینا ہتک آمیز رویہ ہے حالانکہ جسٹس قاضی عیسیٰ پر کبھی بھی کوئی الزام نہیں تھا۔ الزامات پر مبنی صدارتی ریفرنس کو تو سپریم کورٹ نے گزشتہ برس ہی مسترد کر دیا تھا۔ اب بھی وہ سرکاری اداروں کو تحقیقات کا خصوصی اختیار دینے کے خلاف عدالت عظمی میں پیش ہوئے تھے۔ ان کے وکیل منیر اے ملک تھے نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کے دوران علیل تھے جس کی وجہ سے فل بنچ نے خاص طور سے قاضی فائز عیسیٰ کو خود اپنا مقدمہ پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔

حکومت کی طرف سے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھجواتے وقت بھی اسی قسم کا منفی اور ہتک آمیز طرز عمل اختیار کیا گیا تھا۔ میڈیا میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں کی لندن میں املاک کا معاملہ یوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جیسے خدا نخواستہ عدالت عظمیٰ کا ایک جج بدعنوانی کے پیسوں سے آدھا لندن خرید چکا ہو۔ حالانکہ یہ املاک ان کی اہلیہ سرینا قاضی نے خریدی تھیں جو خود صاحب حیثیت ہیں اور ان کے اپنے ذرائع آمدنی تھے۔ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ صرف ایک نامور خاندان کے فرزند ہیں بلکہ جج بننے سے پہلے وہ ایک کامیاب وکیل تھے جو آمدنی پر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے وکیلوں میں نمایاں تھے۔ اس ریفرنس اور اس کی بنیاد پر میڈیا پر قاضی عیسیٰ کے خلاف مہم جوئی کا مقصد کسی طرح انہیں اپنے عہدے سے محروم کرنا تھا۔

نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے واضح کیا تھا کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ کردار کشی کی سرکاری مہم جوئی کا مقصد انہیں سپریم کورٹ سے نکلوانا تھا کیوں کہ انہوں نے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ دیا تھا۔ یہ فیصلہ نومبر 2017 میں تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنا کے بارے میں تھا۔ اس میں عسکری اداروں کے دھرنے میں کردار کو مسترد کیا گیا تھا اور فوجی عہدیداروں کی انتہا پسند گروہوں کی اعانت کرنے پر تنبیہ کی گئی تھی۔ آرمی چیف سے ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے ہوئے اس فیصلہ میں ملک میں غیر قانونی احتجاجی کلچر کا حوالہ دیتے ہوئے 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا اور اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ اس فیصلہ کے خلاف تحریک انصاف کے علاوہ وزارت دفاع کے توسط سے آئی ایس آئی نے بھی نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہوئی ہے۔ واضح رہے آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نومبر 2014 میں فیض آباد دھرنا ختم کروانے کے بعد مظاہرین میں سفر خرچ کے نام پر نقد رقم کے لفافے تقسیم کرتے رہے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نشانہ بنانے کا ایک واضح مقصد یہ تھا کہ اسٹبلشمنٹ اور اس کی نمائندگی کرنے والی حکومت کو عدالت عظمیٰ میں کوئی ایسا جج قبول نہیں ہے جو خود مختاری سے فیصلہ دیتے ہوئے ایسے اداروں کا نام لے سکے جن پر تقدیس کے سات پردے چڑھائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے شوکت صدیقی کو صرف اس الزام میں عہدے سے برطرف کروایا گیا تھا کہ انہوں نے ایک تقریر میں الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی مختلف مقدمات میں مرضی کے جج لگوانے کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے۔ شوکت صدیقی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے برطرف نہ کیے جاتے تو وہ کئی سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کو اب بھی اگر اطمینان سے کام کرنے دیا گیا تو وہ ستمبر 2023 میں 13 ماہ کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔ اسی سال ملک میں قومی انتخابات ہوں گے۔ حکومت اور بادشاہ گری کرنے والے عناصر و اداروں کے لئے سپریم کورٹ کا کوئی ایسا چیف جسٹس قبول نہیں ہے جو خود مختاری سے فیصلے دینے کی شہرت رکھتا ہو۔

نظر ثانی کی درخواستوں کو قبول کر کے عدالت عظمی کے فل بنچ کی اکثریت نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ سپریم کورٹ کو کوئی بھی ادارہ ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔ ججوں کی اکثریت اس کی خود مختاری اور بالادستی کا تحفظ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ فیصلہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments