ناراض ارکان اسمبلی سے وزیر اعظم کی ملاقات: انصاف کا پھریرا لہرا رہا ہے


وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کی حمایت کرنے والے قومی و پنجاب اسمبلی کے 29 ارکان سے ملاقات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ ترین خاندان کے ساتھ انصاف ہوگا۔ تاہم اس ملاقات سے ایک روز پہلے چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر محمد رضوان کو ان تحقیقات سے علیحدہ کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔ یوں اس اہم ملاقات سے پہلے ہی ناراض ارکان اسمبلی کی اشک شوئی کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔

ملاقات کے بعد ارکان اسمبلی نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم نے پورے سکون سے انتہائی خوشگوار ماحول میں ان کی باتیں سنیں۔ انہوں نے تفصیل سے عمران خان کو آگاہ کیا کہ کس طرح داخلہ امور کے مشیر شہزاد اکبر، جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس معاملہ میں عدالتی کمیشن بنانے کی تجویز تو قبول نہیں کی اور نہ ہی گروپ کی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ شہزاد اکبر کسی نا انصافی کا سبب بن رہے ہیں تاہم انہوں نے انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود اس معاملہ کی نگرانی کریں گے اور یقینی بنائیں گے کہ جہانگیر ترین کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو۔ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والا گروپ بنیادی طور سے ایف آئی اے کے متعلقہ ڈائریکٹر کو علیحدہ کرنے اور شہزاد اکبر کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ لے کر ہی وزیر اعظم سے ملا تھا۔ ان میں سے ایک مطالبہ مان لیا گیا جبکہ دوسرے مطالبے پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ شہزاد اکبر کی بجائے وہ خود اس معاملہ کی نگرانی کریں گے۔

یہ اپنی نوعیت کی عجیب مدینہ ریاست اور نیا پاکستان ہے جہاں انصاف یقینی بنانے کے لئے وزیر اعظم کے ساتھ تعلق اور رابطہ ہونا ضروری ہے۔ یا پھر کسی کو اتنے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو کہ وہ وزیر اعظم کو نتائج کی ’دھمکی‘ دے کر طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور کرسکے۔ ملاقات کے بعد وزیر اعظم یا ان کے کسی ترجمان کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن گروپ میں شامل ایم این اے راجہ ریاض اور رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان نے میڈیا سے باتیں کیں اور اس ملاقات کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔ کسی نے یہ تاثر نہیں دیا کہ وزیر اعظم نے کسی نا انصافی کا اعتراف کیا ہے، نہ ہی یہ کہا کہ عمران خان نے شہزاد اکبر کے خلاف ان کی شکایات کو تسلیم کر لیا ہے تاہم کرپشن کے ایک مقدمہ میں ایک انصاف پسند حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے 29 ارکان قومی و پنجاب اسمبلی سے وزیر اعظم کا ملاقات پر راضی ہونا اور ’خوشگوار ماحول میں اطمینان‘ سے ان کی باتیں سننا بھی یہ واضح کرتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی ہی پارٹی کے اندر شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ایک فرد کی کھلم کھلا حمایت کرنے والے ارکان اسمبلی سے ملاقات کر کے انہیں مطمئن و خوش کرنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔

اس حوالے سے یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ عمران خان کوئی اچھے سامع نہیں ہیں اور انہیں ہمہ وقت خود راستی کا گمان رہتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے سیاسی نظام میں وزیر اعظم کے عالی وقار منصب پر فائز کوئی پارٹی لیڈر کسی ایک معاملہ پر ناراضی کا اظہار کرنے والے ارکان اسمبلی سے براہ راست ملاقات نہیں کرتا بلکہ بالواسطہ طریقے سے ان کی شکایات دور کرنے یا ان کی سرزنش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ملاقات عمران خان کی سیاسی مجبوری و لاچاری کو نمایاں کرتی ہے جو ان کے باقی ماندہ دور حکومت میں فیصلوں پر اثر انداز ہوگی۔ پہلے اڑھائی برس نعروں اور بے عملی میں صرف کرنے کے بعد اب عمران خان کی خواہش و کوشش ہے کہ کسی بھی طرح انتخابات سے پہلے ملکی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا کیے جائیں۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سرکردگی میں سرکاری مصارف میں اضافہ کے ذریعے قیمتوں میں کمی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم اگر پارٹی کے اندر پیدا ہونے والے باغی گروپ وزیر اعظم پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیں گے تو عمران خان کی اتھارٹی کے بارے میں شدید شبہات پیدا ہوں گے۔ پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ تحریک انصاف ’پراکسی حکمران‘ ہے، اصل اختیار اسٹبلشمنٹ کے پاس ہے۔

ناراض ارکان اسمبلی سے ملاقات پر راضی ہونا بجائے خود ناکام حکومت کی علامت ہے۔ اس گروپ میں قومی اسمبلی کے دس اور پنجاب اسمبلی کے انیس ارکان شامل تھے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے جو پنجاب کے علاوہ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تو اسمبلیوں کے وہ ارکان ہیں جو علی الاعلان جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے عدالت جاتے رہے ہیں اور ان کی دعوتوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ تحریک انصاف میں حکومت سے ناراض ارکان اسمبلی کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے ارکان ایسے ہوں گے جو اس وقت مصلحتاً سامنے نہیں آنا چاہتے اور اپنی اصل ’وفاداری‘ ظاہر کرنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے حکومت کی صفوں میں پڑنے والی دراڑوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی مجبوری نے عمران خان کو ناراض ارکان سے ملنے اور خوشی خوشی ان کی شکایات سن کر انہیں حل کرنے کا وعدہ کرنے پر مجبور کیا۔ حالانکہ عمران خا ن مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کی وہ کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ہر قیمت پر درست فیصلے کریں گے۔ ناراض ارکان سے ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ وقت آنے پر کوئی بھی وزیر اعظم ’بلیک میل‘ ہوجاتا ہے۔

ارکان اسمبلی اور وزیر اعظم کی ملاقات اگر کسی سیاسی اختلاف کو حل کرنے یا اسمبلیوں میں حکمت عملی کے حوالے سے ہوتی تو اسے صحت مند جمہوری طریقہ سمجھا جاتا۔ لیکن یہ ملاقات ایک شخص کی مبینہ قانون شکنی پر وفاقی ادارے کی تحقیقات کے حوالے سے ہوئی ہے۔ خبروں کے مطابق وزیر اعظم نے اس معاملہ کی خود نگرانی کرنے یا انصاف یقینی بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ایک خاص معاملہ میں چونکہ ارکان اسمبلی کی ایک قابل ذکر تعداد احتجاج کر رہی ہے تو وزیر اعظم ان کی بات سننے پر مجبور ہو گئے حالانکہ اس کا براہ راست ان کے عہدے اور اختیار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو یہ وعدہ بھی کرنا پڑا کہ وہ احتساب کے لئے مقرر کیے گئے اپنے مشیر کی بجائے خود اس معاملہ کی نگرانی کریں گے۔ یعنی وہ ایف آئی اے سے براہ راست جہانگیر ترین کے معاملہ میں جواب طلب کریں گے اور اس کیس کی پراگرس کے بارے میں چھان بین کریں گے۔ یہ طرز عمل ادارہ جاتی خود مختاری کے بنیادی جمہوری اصول اور قانون اہتمام سے متصادم ہے۔ کسی بھی ملک میں اس وقت تک احتساب کا کوئی بھی انتظام کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک سرکاری اداروں کو تحقیقات اور قصور وار کا تعین کرنے میں مکمل آزادی حاصل نہ ہو۔

شوگر اسکینڈل پر ہونے والی تحقیقات اور ان کے نتیجے میں شروع کی گئی نام نہاد قانونی کارروائی ان معنوں میں بے مقصد اور عملی طور سے مضحکہ خیز ہے کہ یہ سارا معاملہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافے، ایک ایسے وقت میں شکر برآمد کرنے کی اجازت دینے جب کہ ملک میں قلت کا امکان تھا اور مل مالکان کا ’نقصان‘ پورا کرنے کے لئے سبسڈی دینے سے متعلق تھا۔ شوگر مافیا کے خلاف تند و تیز بیانات دینے اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مقدمے قائم کرنے کے طریقہ کے باوجود ملک میں چینی کا بحران ختم نہیں ہوا اور اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ یہ صورت حال حکومتی طریقہ کار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں سیاسی حکمران مارکیٹ کی ضرورت اور پیداواری الجھنوں کا تال میل سمجھنے میں ناکام رہے۔ اور محض لوگوں کی تشفی کے لئے سیاسی نعرے کے طور پر تحقیقات کرنے اور چوروں کو سزا دینے کا اعلان ہوتا رہا ہے۔ حالانکہ ملک میں چینی کی ضرورت کا اندازہ کیے بغیر برآمد کی اجازت دینے والی وفاقی حکومت اور پھر اس برآمد پر سبسڈی دینے والی پنجاب حکومت کے متعلقہ سیاسی نگرانوں کو ذمہ دار ٹھہرائے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے تھے۔ لیکن مسئلہ کا حل کبھی عمران خان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا بلکہ کسی بھی بحران سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ان کی اولین خواہش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کا بحران دراصل اس حکومت کا بڑا امتحان ثابت ہوا ہے اور اب وزیر اعظم اس اسکینڈل کے نگران افسر کو تبدیل کر کے ’شفافیت‘ کے بنیادی اصول کو نظر انداز کرنے کا سبب بنے ہیں۔

ناراض ارکان سے ملاقات کر کے یہ یقین دلوانے کے بعد کہ ایف آئی اے ترین خاندان کے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گی، عمران خان نے دراصل تسلیم کیا ہے کہ سیاسی رسوخ کے بغیر ان کی حکومت بھی انصاف کی ’ضامن‘ نہیں بن سکتی۔ اس ملاقات سے وزیر اعظم کا بلا تفریق احتساب کا وعدہ بے بنیاد اور فریب ثابت ہوا ہے۔ ان کے لئے اب اپوزیشن کے ان دعوؤں کو جھٹلانا آسان نہیں ہوگا کہ احتساب کا نعرہ اور طریقہ سیاسی انتقام اور مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments