ٹی ایل پی کے معاملے میں ناقص حکومتی حکمت عملی


ماضی کا سبق اور جدید دور کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم اب اتنی بڑی غلطیاں نہ کریں کہ ضیاء دور میں واپس چلے جائیں اور ان کی باقیات کو پھر سے زندہ کر دیں جس میں دہشت گردی، مذہبی انتہاپسندی اور لسانی فسادات کا پنپنا اور تناور درخت بن جانا تھا جو ایک ناسور بن کر اس معاشرے کو نگلتے رہے ہیں۔ جس کا خمیازہ آج تک یہ قوم بھگت رہی ہے۔

مذہب کے نام پر ہم لوگوں کے ایک خاص گروپ کو کبھی ہیرو بناتے رہے۔ جب حالات بدل گئے تو ہم اسی گروپ کے لوگوں کو دہشت گرد سمجھ کر مارنے لگے۔ تحریک لبیک کا حالیہ دھرنا بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جب 2017 میں ان لوگوں نے دھرنا دے کر ملک کے جڑواں شہروں کو یرغمال بنایا تھا تو اس وقت ان کو قانون کے تحت روکنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس گروہ کی صحیح نشاندہی کی تھی۔ اگر اس وقت جسٹس فائز عیسیٰ کی باتوں پر عمل کیا جاتا تو آج پھر یہ ہجوم اسلام آباد پر چڑھ نہ دوڑتا۔حکومت اور سیکورٹی ادارے اتنے بے بس نہ ہوتے۔

اس وقت ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔،ان کو اپنے لوگ کہا گیا۔ ان میں پیسے بانٹے گئے۔ اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے ان کو اپنی مرضی سے جلوس لے کر آنے اور لاقانونیت پھیلانے کی شہ مل گئی۔ دوسری دفعہ جب تحریک لبیک والوں کا جلوس اسلام آباد میں آیا تو چاہیے تھا کہ حکومت کوئی حکمت عملی مرتب کرتی اور حقیقت پر مبنی مذاکرات کرتی، دھرنے والوں کو قائل کرتی اور واضح کرتی کہ کسی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا اور سفیر کو نکال دینا کسی ملک اور حکومت کے لئے کتنا مشکل ہوتا ہے۔اس کے برعکس حکومت نے دھرنے والوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کر کے وقتی ٹال دیا۔

حکومت کی اس بچکانہ حرکت کی وجہ سے 20 اپریل کی مدت آ گئی لیکن حکومت اپنے وعدے کے مطابق فرانسیسی سفیر کو نکال سکی نہ اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش کر سکی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک لبیک حکومت کی طرف سے معاہدے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں پھر سے سڑکوں پر نکل آئی۔ اب لاء اینڈ آرڈر کی حالت خراب ہو گئی۔ حکومت اپنی ہی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے مشکل میں پھنس گئی۔ دھرنے والوں نے توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ لوگوں اور ایمبولنسز کے راستے روکے گئے۔ پولیس والوں کو مارا پیٹا گیا۔ ایف سی اہلکاروں کو اغواء کیا گیا۔ لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ لوگوں کی مار پیٹ کی وجہ سے چار پولیس اہلکار بھی جان سے گئے۔

یہ سب کچھ جو حالیہ دنوں میں ہوا ہے یہ اس حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ اس کے بعد حکومت نے اس تحریک کو کالعدم قرار دے کر اس کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈال کر اذیتیں دیں۔ یہ سب دونوں طرف سے ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔ صرف لاقانونیت ہو رہی ہے۔ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے علماء ناموس رسالت کے نام پر یہ جو سب کچھ کر رہے ہیں ، اس سے ان علماء کی دکانیں تو خوب چلتی ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اس طرح نہ وہ دین کی کوئی اعلیٰ اور صحیح خدمت کرتے ہیں نہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم کے عظیم پیغام پر عمل کر سکتے ہیں۔

ناموس رسالت سے مراد ہے کہ ہم عملی طور پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات پر عمل کریں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بن سکیں۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کی تعلیمات کے مطابق راستے سے کانٹا اٹھانا اور مسکرا کر جواب دینا بھی صدقہ ہے۔ تو ہم ان تعلیمات سے ہٹ کر لوگوں کو کیسے اتنی بڑی اذیتیں دے سکتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقدس نام لے کر جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کے برعکس ہے۔

جب ہم اپنے ہی ملک میں لوگوں کو گالیاں دے کر، راستے روک کر اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں تو اسے فرانس اور فرانسیسی سفیر پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف جتھے لے کر اپنے ملک پر چڑھائی کر کے اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ ہمارے سارے علماء اور لوگ مل کر ایک بڑا پرامن جلوس لے کر اسلام آباد جاتے۔ کوئی گملا بھی نہ ٹوٹتا اور یوں پرامن احتجاج ریکارڈ کروا کر ہم دنیا کو بھی یہ باور کرا سکتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے چاہنے والے امن پسند لوگ ہیں اور وہ اپنے پیغمبر کے خلاف ایسی گھناؤنی حرکتوں کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔

اس ملک میں اللہ کے فضل سے 97-98 فی صد مسلمان بستے ہیں۔ سب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناموس پر مر مٹنے والے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں کے رہنے والوں کے ایمان اور ملک سے وفاداری کو کوئی اور جج کرتا ہے۔ ایمان ایک انفرادی عمل ہے جو اکیلے میں انسان اور خدا سے براہ راست تعلق کا ذریعہ ہے جو کسی مولوی کے ذریعے نہیں ہوتا۔ کون کس سے زیادہ پرہیزگار ہے یا کون جنت اور جہنم میں جائے گا ، یہ خدا نے فیصلہ کرنا ہے۔ کسی کو بھی دوسروں کے ایمان کا ٹھکیدار بننے کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک کو اپنی فکر کرنی چاہیے کیونکہ سب نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے کسی دوسرے کا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments