نریندر مودی بمقابلہ ممتا بینرجی: کیا مغربی بنگال کے انتخابات میں انڈیا کی جمہوریت اور مودی کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا؟

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کولکتہ


ممتا مودی

انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں ریاستی انتخابات اب آخری مراحل میں ہیں اور اٹھویں مرحلے میں 35 سیٹوں پر آج (29 اپریل) پولنگ ہو رہی ہے۔

انڈیا کی انتخابی تاریخ میں غالباً یہ واحد ایسا ریاستی انتخاب ہے جس میں ایک علاقائی پارٹی کو شکست دینے کے لیے ملک کے وزیر اعظم نے غیر معمولی انتخابی مہم چلائی ہو۔

سیاسی ماہرین کے مطابق مغربی بنگال کے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ ملک کی مستقبل کی جمہوریت کا رُخ طے کرنے والے ہیں۔

بنگال اسمبلی کے یہ انتخابات انتہائی تلخ ماحول میں لڑے جا رہے ہیں۔ انتخاب میں ایک طرف ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بینرجی ہیں جو تیسری بار اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہیں، دوسری جانب کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں اتحاد بنا کر انتخاب لڑ رہی ہیں جبکہ تیسری جانب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے۔

مغربی بنگال میں اصل مقابلہ ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جس کا نام لینا گوارا نہیں تھا ’وہ عورت‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کیسے بنی؟

‘شہریت کا قانون بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا ایجنڈہ‘

اویسی کی ریلی نماز پر اور یوگی کی جے شری رام کے نعروں پر ختم: بنگال کے انتخاب اور ہندو مسلم شناخت

294 رکنی مغربی بنگال اسمبلی میں ممتا بینرجی گذشتہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ بی جے پی کو سنہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں محض دس فیصد ووٹ ملے تھے لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اس کا ووٹ بینک بڑھ کر 40 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔

امیت شاہ

بی جے پی مغربی بنگال کی دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے اور اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی عوام میں ذاتی مقبولیت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ممتا بینرجی بھی ریاست کی ایک مقبول رہنما ہیں جنھیں خواتین ووٹرز کے علاوہ ریاست میں بسنے والے 27 فیصد مسلمانوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔

یہاں انتخاب جیتنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پوری طاقت اور وسائل لگا رکھے ہیں۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں انتخاب شروع ہونے سے ایک برس قبل ہی اپنی انتخابی مہم چلانا شروع کر دی تھی۔

وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور پارٹی کے صدر جے پی نڈا کے علاوہ درجنوں مرکزی وزرا اور بی جے پی کے رہنما انتخابی ریلیوں میں گذشتہ ایک سال کے دوران شریک ہوتے رہے ہیں۔

بی جے پی ممتا بنیر جی کو ایک ہندو مخالف رہنما کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ بی جے پی کی انتخابی ریلیوں کا مقبول نعرہ ‘جے شری رام’ ہے جو ایودھیا کی رام جنم بھومی کی تحریک کا نعرہ بھی تھا۔

انڈیا

سیاسی تجزیہ کار شوبھوئے موئترا کہتے ہیں کہ ’ریاست کا جو سیکولر ماحول تھا، اس میں بی جے پی کے آنے کے بعد فرق پڑا ہے۔ یہاں پہلی بار ہندؤ مسلم پولرائزیشن دکھائی دیتی ہے۔ اس کا اثر کیا ہو گا یہ انتخابات کے نتائج کے بعد معلوم ہو جائے گا۔‘

موئترا کا خیال ہے کہ کہ اس مرتبہ ہونے والے انتخابات میں ہار اور جیت کا فرق بہت زیادہ نہیں ہو گا۔

بی جے پی کی ایک رہنما کیا گھوش نے بی بی سی کو بتایا کہ ریاست میں لوگ ممتا بینرجی سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’ممتا جی نے پریورتن یعنی تبدیلی کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا۔ وہ ووٹ کے لیے ہندؤ مسلم کی سیاست کرتی ہيں۔ انھوں نے ترقی کا صرف جھانسہ دیا ہے۔ مغربی بنگال میں صنعتیں نہیں ہیں، نوکریاں نہیں ہیں اور سلامتی بھی نہیں۔ اب لوگو ں میں ایک امید جاگی ہے کہ بی جے پی ریاست میں اصل پریورتن (تبدیلی ) لائے گی۔‘

مغربی بنگال میں بی جے پی کا کوئی منظم تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ پارٹی کے بیشتر سینیئر رہنما ممتا بینر جی کی ترنمول کانگریس سے منحرف ہو کر بہتر امکانات کی امید میں بی جے میں شامل ہوئے ہیں۔

انڈیا

کیا گھوش: ممتا جی نے پریورتن یعنی تبدیلی کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا

مودی کے لیے یہ انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہندو قوم پرست پارٹی (بی جے پی) شمال کی سبھی ریاستوں میں فتح یاب ہو چکی ہے۔

لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ یہاں بھی جیت کے امکانات کو دیکھ رہی ہے۔ بنگال ایک بڑی ریاست ہے جو ہندو راشٹر کے نظریے کی مکمل کامیابی کی راہ میں حائل ہے۔ بی جے پی کے ہمدردوں کا خیال ہے کہ ہندؤ راشٹر کے خواب کی تکمیل کے لیے بی جے پی کے لیے بنگال سے جیتنا لازمی ہے۔

ریاست کے معروف تجزیہ کار شوبوجیت باگچی کہتے ہیں کہ ریاست بنگال بی جے پی کے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے۔ ’مودی ایک طرف سیاسی رہنما ہیں اور دوسری جانب ہندوؤں کے پیغمبر بھی ہیں۔ ان کے بارے میں ایسا ہی تاثر دیا جا رہا ہے۔ جب ممتا بینرجی، راہل گاندھی اور شرد پوار جیسے سیاسی رہنماؤں کا مقابلہ پیغمبر سے ہو تو وہ پیغمبر سے کیسے جیتیں گے؟ میڈیا اور بی جے پی نے مودی کی یہی شبیہ بنائی ہے اور یہ تاثر دانستہ طور پر پراجیکٹ کیا جا رہا ہے۔‘

باگچی کا کہنا ہے کہ بنگال کے الیکشن میں 73 فیصد ہندوؤں کے ووٹ کو توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’بی جے پی کو 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 57 فیصد ہندوؤں کا ووٹ ملا تھا۔ وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ وہ 60 فیصد سے زیادہ ہندوؤں کا ووٹ حاصل کر سکیں۔ اگر اسے 60 فیصد سے زیادہ ووٹ ملتا ہے تو ترنمول کانگریس نہیں جیت سکے گی۔ بی جے پی کی حکمت عملی یہی ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ریاست میں اگر ترنمول کانگریس فتحیاب ہوتی ہے تو یہ وزیر اعظم مودی کی ذاتی طور پر بہت بڑی سیاسی شکست ہو گی، ممتا بینرجی کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھ جائے گا اور وہ منتشر اپوزیشن کے اتحاد کا محور بن سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے لیے مودی کے مقابلے میں اپوزیشن کی متحدہ امیدوار بن کر ابھر سکتی ہیں۔

انڈیا

کستوری باسو: اگر بنگال کے ساتھ ساتھ کیرالہ، تمل ناڈو، پانڈیچری اور آسام میں بھی بی جے پی ہارتی ہے تو یہ شکست اپوزیشن اتحاد کا راستہ کھول دے گی

کئی بڑی سیاسی جماعتیں پہلے ہی ممتا کی حمایت میں آگے آ چکی ہیں۔

کولکتہ کی معروف سوشل ورکر اور دانشور کستوری باسو ’بی جے پی کو ووٹ نہ دیں‘ نامی ایک مہم کا حصہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بنگال کے ساتھ ساتھ کیرالہ، تمل ناڈو ، پانڈیچری اور آسام میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں، ان سبھی ریاستوں میں اگر بی جے پی ہارتی ہے تو یہ شکست اپوزیشن اتحاد کا راستہ کھول دے گی۔‘

سینيئر تجزیہ کار نسرین خان کہتی ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کی جیت ملک کی جمہوریت کا رُخ بدل دے گی۔ ’جس انڈیا کو ہم پہچانتے ہیں وہ نہیں رہے گا۔ بی جے پی ملک کا آئین بدل دے گی۔ آئین کی جو جمہوری قدریں ہیں، جو بنیاد ہے اگر انھیں ہی بدل دیا جائے گا تو سب ختم ہو جائے گا۔ وہ جمہوری انڈیا نہیں باقی رہے گا جسے ہم جانتے ہیں۔‘

گر بنگال کے انتخابات میں مودی کی پارٹی شکست سے دو چار ہوتی ہے تو یقیناً ان کی سیاست کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا-

تجزیہ کار شووجیت باگچی کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی سیاست میں فعال اور اہم بنے رہنے کے لیے خطرہ مول لینے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ سب سے زیادہ خطرہ مول لینے کی طاقت مودی میں ہے۔ اگر وہ ملک کی نوے فیصد کرنسی کو یک لخت ہٹا سکتے ہیں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘

ڈیڑھ مہینے تک جاری رہنے والے انتخابات کے سبھی مرحلوں کے ووٹوں کی گنتی دو مئی کو ہوگی۔ بنگال ہی نہیں پورے ملک میں ان نتائج کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp