مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کون کرے گا؟


سات سال قبل، جون 19، 2014 کو، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے پشاور چرچ بم دھماکا سانحہ میں سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے تاریخی فیصلہ دیا۔

انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ درج ذیل اقدامات فوراً کریں:

1۔ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لئے ایک حکمت عملی تیار کرنے کے لئے وفاقی سطح پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دیں۔
2۔ مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا جو ابتدائی، ثانوی اور عمودی سطح پر تعلیم کے لئے موزوں نصاب کا حامل ہے۔
3۔ سوشل میڈیا میں نفرت کا اظہار روکا جائے۔

4۔ اقلیتوں کے لئے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قومی کونسل تشکیل۔
5۔ اقلیتوں کی عبادت کی جگہوں کی حفاظت کے لئے ایک خصوصی پولیس فورس قائم کریں۔
6۔ سرکاری ملازمتوں میں 5 فیصد اقلیتی کوٹہ کو فروغ دیں۔

7۔ جب بھی مذہبی اقلیتوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا ان کی عبادت کی جگہوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو فوری کارروائی کرتے ہوئے مجرمانہ کیس کی رجسٹریشن کی جائے۔

اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان اور یورپی منڈیوں میں جی ایس پی اسٹیٹس پلس میں بھی درج ذیل نکات اقلیتوں بارے درج کیے گئے:

ریاست اور ریاستی و حکومتی اداروں کی طرف سے بنائے گئے قومی ایکشن پلان کے نکات کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

پاکستان اور پاکستانیوں کو یورپی منڈیوں میں جی ایس پی اسٹیٹس ملنا بھی اقلیتوں کے تحفظ سے مشروط تھا۔ مگر پچھلے کچھ ہی عرصہ میں اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی، اور ظلم و بربریت کے اتنے واقعات دیکھنے کو ملے کہ دل و دماغ سے ایک ہی آواز آئی کہ کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان، کیا یہ ہے ہمارا پاکستان؟

ہندوؤں اور مسیحیوں کے بیٹیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے پے در پے واقعات خصوصاً حالیہ رینا کماری کا نکاح اور اس کی جان بخشی کی فریاد۔

سول ہسپتال میں نرسز کے خلاف مقدمہ
کراچی میں تابیتا کے خلاف مقدمہ
اندرون سندھ میں ہندوؤں کے گھر جلائے جانا
فیصل آباد میں بادل مسیح اور داؤد مسیح کے ساتھ زیادتی اور قتل
جاوید مسیح کا اغواء اور قتل
مصعوم فیصل ایوب مسیح کے ساتھ مسلم لڑکوں کی اجتماعی بد فعلی
سروسز ہسپتال لاہور کے سیکورٹی گارڈز اور ڈاکٹروں کے تشدد سے مسیحی نوجوان سنیل سلیم کی ہلاکت۔
کوئٹہ میں مسیحی بہن بھائی پر فائرنگ

سیالکوٹ میں مذہب تبدیل نہ کرنے پر عاصمہ کو آگ لگا دینا۔ اور بعد ازاں اس کا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہو جانا۔

لاہور میں پطرس مسیح اور ساجد مسیح پر توہین رسالت کا مقدمہ اور دوران تفتیش ایک دوسرے کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کرنے پر مجبور کیا جانا، جس کے نتیجے میں ساجد مسیح کا ایف آئی اے کی بلڈنگ سے چھلانگ لگا کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جانا۔

کوئٹہ میں چرچ پر فائرنگ کے نتیجے میں مسیحی لوگوں کی جانوں کا ضیاع
مریدکے میں مسیحی بچی کے ساتھ زیادتی
کوئٹہ میں نہتے مسیحی افراد پر موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ، اور چار مسیحی افراد کی ہلاکت

پتوکی میں ایک مسلمان کا سول جج کی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کرنا کہ مسیحی افراد کا اس کے محلہ سے گزرنا ممنوع قرار دیا جائے۔

ایسے میں دیکھا جائے تو پنجاب ایک طرف مسیحی برادری کے لئے جہنم بنا ہوا ہے تو دوسری طرف سندھ ہندو برادری کے لئے نرگ کی مثل ہے ، سندھ میں ہندوؤں کو جبری مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے ۔ ان کی لڑکیاں اغواء کی جاتی ہیں اور پنجاب کا سماجی ڈھانچہ اتنا خراب ہے کہ یہاں ظلم و تشدد کے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

کراچی میں تابیتا اور فیصل آباد سو ل ہسپتال میں نرسز کے واقعہ میں ایک سوال تو بنتا ہے کہ بھلے ان پر خلاف قانون واقعہ کا الزام لگا ہے مگر یہ کیا بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہ جو مرضی اٹھے اور خود ہی انصاف کرنا شروع کر دے اور موقع پر ہی ملزم پر تشدد کرنا شروع کر دے۔

سیالکوٹ میں پیش آنے والے واعے میں عاصمہ یعقوب مسیح برادری سے تعلق رکھتی تھی ، بیوٹی پارلر میں کام کرتی تھی ، وہ خاندان کے چھ افراد کے واحد کفیل تھی ۔ اس کو ایک مسلم نوجوان شادی کا اور مذہب تبدیل کرنے کا پیغام دیتا ہے ، وہ انکار کرتی ہے ۔ اس پر تیزاب پھینکا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ، ایسے واقعات ہمارے مذہبی ، سیاسی ، رہنماؤں ، دانشوروں اور مفکروں کے کردار پر بہت سوالات چھوڑ جاتے ہیں کہ آخر معاشرے کے سدھار میں ان کا کیا کردار رہا ہے؟

وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ انسانوں کے لئے جہنم کیوں بنتا جا رہا ہے ؟ ہم ان ممالک سے سیکھ کر اپنے معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ کیوں نہیں بنا لیتے جنہوں نے اپنے معاشرے کی تعمیر انسانی بنیادوں پر کی؟

حالیہ واقعات اور حکومتی اقدامات کو دیکھا جائے تو حکومت اقلیتوں کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، حکومت سمیت تمام اداروں کو یہ رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور جناب تصدق جیلانی کے فیصلے سمیت تمام آئینی حقوق پر فوراً عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کہ آئینی ذمہ داری پوری کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments