اب افغانستان میں کیا ہو گا اور پاکستان کیا کرے گا؟


بیس سال بیت گئے، نسلیں جوان ہو گئیں، ایک دہشت گردی کی تباہی میں لاکھوں جانیں چلی گئیں۔ اب آخر کار امریکہ بہادر افغانستان سے جا رہا ہے۔ اس جنگ میں امریکہ کو کیا ملا۔ اس پر کسی اور دن تفصیل سے لکھوں گی۔ یکم مئی جو بائیڈن کے فیصلے کی تعمیل کا پہلا دن تھا۔ ذہن میں بار بار ایک سوال آتا ہے اب افغانستان کا کیا ہو گا یا اب افغانستان میں کیا ہو گا؟

سال 2019 میں بطور نوجوان امن کے سفیر میں کئی بار افغانستان کے دارالحکومت کابل گئی۔ وہاں کے نوجوانوں سے بہت سے موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ ہر بار ایسا لگا کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے ناراض ہیں۔ وجوہات واضح ہیں کئی دہائیوں سے پاکستان کی افغانستان کے معاملات میں مداخلت۔ افغان لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے افغانستان کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ لیکن واضح طور پر قوموں اور ریاستوں میں دوستی یا پھر دشمنی مقاصد اور مفادات پر ہی مبنی ہوتی ہے۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ افغانستان پاکستان کا دشمن نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان سوویت اتحاد کے خاتمے کے ساتھ خود بھی دفن ہو جاتا یا پھر القاعدہ کے امریکہ میں کیے جانے والے گیارہ ستمبر کے کارنامے کے بعد پاکستان اپنے اوپر ایک جنگ مسلط کرا لیتا اور شاید آج ہم بھی منتظر ہوتے کہ کب اپنی بحالی کا کام شروع کریں اور کب امریکہ بہادر جائے۔

بین الاقوامی پالیسیوں اور قومی مفاد پر بھی کسی اور دن تفصیلاً بات ہو گی۔

آج کا موضوع یہ ہے کہ اب افغانستان میں کیا ہو گا۔ کیونکہ بالآخر امریکہ نے افغانستان خالی کرنے کے لیے پہلا قدم لے لیا ہے۔ یقیناً امریکہ اس خطے سے ایسے نہیں جانا چاہتا ہو گا جیسے جا رہا ہے۔ گویا! بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ امریکہ کے پاس اپنی جیت دکھانے کے لیے کیا ہے؟

دوسری طرف افغانستان میں طاقت کا توازن بگڑتا نظر آ رہا ہے۔ ایک افغان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق، 14 اپریل کو امریکی فوجوں کے انخلاء کے اعلان کے بعد سے اب تک افغانستان میں طالبان کے مختلف حملوں میں اوسطاً 11 سے 49 فوجی اور عام شہری روزانہ ہلاک ہو رہے ہیں۔

انہی اعداد و شمار کے مطابق، 15 اپریل سے اب تک 24 صوبوں میں طالبان کے حملوں میں 226 افغان شہری اور فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

دوحہ معاہدے کے تحت، ریاست ہائے متحدہ امریکہ باضابطہ طور پر یکم مئی یعنی آج سے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانا شروع کر دے گی جبکہ 11 ستمبر تک انخلاء کا یہ عمل مکمل ہو گا۔

اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت کس کے ہاتھ ہو گی؟ کون شہریوں کی جان مال اور تحفظ کی ذمہ داری اٹھائے گا؟ کیا عالمی برادری طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے آمادہ ہو جائے گی؟ موجودہ افغان حکومت کیا کوئی عملی منصوبہ بنانے میں کامیاب ہو گی جس سے ریاست کی رٹ قائم رہے؟ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں معصوم اور بہادر افغان شہری پس تو نہیں جائیں گے؟ کب تک افغان حکومت طالبان کو ہر روز ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار قرار دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتی رہے گی؟

اس انخلاء کے تناظر میں پاکستان کو کون سی ذمہ داری دی جا سکتی ہے؟

پاکستان، افغانستان میں دائمی امن کے لیے افغان قیادت کے اپنے فیصلوں کو سراہتا ہے۔ جسے دوسرے الفاظ میں Afghan led Afghan owned بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی اسلام آباد کابل کے معاملات کو ان کا اندرونی معاملہ سمجھنے لگا ہے لیکن اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جن میں افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ہونی والی سول وار کی صورت میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ایک سوال اب بھی طے ہونا باقی ہے کہ امریکہ کو ہوائی اڈے نہ فراہم کرنے کے فیصلے پر پاکستان کتنے وقت تک مستحکم رہ سکتا ہے؟

ویسے تو یہ وقت افغانستان کے لیے اہم ہونا تھا لیکن پاکستان کے لیے بھی انتہائی نازک وقت ہے جس کا اندازہ آپ امریکہ کے وزیر دفاع جنرل لائیڈ آسٹن کی پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہونی والی ملاقات سے لگا سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا لیکن پھر بھی اس کی پاکستان کی جانب نظریں ہیں جسے وہ افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء سے سب سے زیادہ خدشات پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر مختلف طریقوں سے دباؤ بھی بڑھایا جا رہا ہے اور اس کے لیے وہ پاکستان کے کچھ مطالبات ماننے اور پاکستان کو مدد کی آفر کی بھی کر رہا ہے۔ دیکھے ستمبر تک کیا کیا تبدیلیاں آتی ییں۔

لیکن ان سب میں، ایک بات تو طے ہیں کہ افغانستان کے امن سے خطے میں امن ہو گا اور اگر افغانستان پرامن نہ ہوا تو پورا خطہ ایسے ہی دھماکوں سے لرزتا رہے گا۔

پاکستان بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے لیے ایک ایسی پالیسی پر اب اتفاق کرنا ناگزیر ہو چکا ہے جس سے خطے میں باہمی امن کو فروغ ملے، تجارتی مراکز میں اضافہ ہو اور عام لوگوں کو صحت، تعلیم، کاروبار اور ترقی کے مواقع مل سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments