میرا فلسفۂ حیات


آج کے مصروف اور جدوجہد زندگی کے مقابلے کے دور میں ہم اس قدر کھو گئے ہیں اور روزمرہ کی مصروفیات میں اس قدر محو ہیں کہ کچھ اور سوچنے کا وقت ہے نہ ہی کوئی کاوش نہ خواہش۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اس کی پرورش میں لگ جاتے ہیں۔ سکول جانے کی عمر آتی ہے تو والدین اس کی تعلیم پر اپنی توانائی صرف کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سکول اور کالج کا انتظام و اہتمام کرنے کے علاوہ گھر پر بچے کی کوچنگ یا ٹیوشن کے انتظام و نگرانی کے فریضے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔

نہ تفریح کا خیال اور نہ ملنا ملانا۔ کوئی اصرار کرے تو ایک ہی عذر کہ بچوں کی پڑھائی اور پھر ٹیوشن کے بعد وقت ہی نہیں بچتا وغیرہ وغیرہ۔ خدا خدا کر کے بچے تعلیم سے فارغ ہو جائیں تو پھر ملازمت کے حصول کے لئے تگ و دو کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ لو جی اب تو بچہ برسر روزگار ہو گیا ہے۔ اب تو شادی کر ہی دینی چاہیے۔

شادی بھی ہو گئی اور اب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی اور ایک لائف سائیکل ختم ہوا اور دوسرا شروع ہو گیا۔ بچے کا لائف سائیکل مکمل ہونے میں والدین تو ہلکان ہو جاتے ہیں۔ غم روزگار کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں اور تفریح کا فقدان جبکہ مشاغل تو دور کی بات ہے۔ ایسے میں اس سے آگے کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

مزید قلم طرازی سے پہلے میں واضح کر دوں کہ میں بچوں کی تربیت و کوچنگ کے خلاف ہرگز نہیں ہوں، اس سے بچہ اور اس کا کیریئر نکھرتا ہے اور یہ بچے کا حق بھی ہے۔ اس کے برعکس جن بچوں کی کوچنگ نہیں ہوتی ، ان کا لائف سائیکل کچھ یوں ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہوتا ہے ، تعلیم حاصل کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں ڈاکٹر انجینئر یا پروفیسر بنتا ہے یا پھر ویلڈر ، مکینک یا دکاندار بن جاتا ہے۔ پھر ان سب کی شادیاں ہوتی ہیں اور بچے پیدا ہوتے ہیں اور یہ لائف سائیکل بھی مکمل ہو جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو دونوں لائف سائیکلز میں کوئی خاص فرق نہیں۔ مزید کچھ لکھنے سے پہلے میں ایک دفعہ پھر کہہ دوں کہ میں بچوں کی کوچنگ کا مخالف نہیں ہوں۔ کوچنگ سے بچوں کے لئے علم و ہنر کے در وا ہوتے ہیں مگر مجھے کہنے دیجیے کہ بچوں کی کوچنگ کو اپنا مقصد حیات مت بنائیے۔ بچوں کی پڑھائی میں معاونت کیجیے اور ان کی نگرانی کیجیے اور اس میں کبھی غفلت کے مرتکب نہ ہوں۔ بچوں کا لائف سائیکل مشیت ایزدی نے ترتیب دے رکھا ہے ، اسے ہر حال میں مکمل ہونا ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ ہم البتہ کاوش کرتے ہیں کہ ہر مرحلے میں نکھار پیدا ہو اور یہ ہمیں کرتے رہنا چاہیے لیکن اسی پہ اکتفاء نہیں ہونا چاہیے۔

دوسرا مسئلہ جسے ہم نے سر پر سوار کیا ہوتا ہے ، وہ ہے ملازمت یا کاروبار۔ اپنے کاروبار یا ملازمت کے ساتھ ضرور انصاف کریں ، وقت دیں تاکہ رزق حلال کا تقاضا پورا ہو مگر یہ بھی آپ کا مقصد حیات نہیں ہے۔ ان دو کاموں سے کچھ وقت بچا کر کوئی ایسا کام کیجیے جس کے کرنے کا آپ کو شوق ہو۔ کوئی ایسا کام جس کے کرنے کے لئے آپ کے اندر سے امنگ اٹھے اور جو کام دل کی لگن سے کیا جائے ، وہ ضرور بخیر و خوبی پایۂ تکمیل تک بھی پہنچتا ہے اور اعلیٰ معیار کو بھی چھوتا ہے۔

اب سوال آتا ہے کہ کیا مقصد حیات ہونا چاہیے۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ایسا کام کریں جس سے آپ کو رغبت ہو۔ مشورے کے طور پر کچھ تجویز کرتا ہوں جس میں سے کوئی ایک اپنی طبیعت کے میلان کے حساب سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔

مسلم ہونے کے سبب پہلا حق دین کا ہے۔ اگر آپ کا رجحان اس طرف ہے تو آپ قرآن و حدیث کی ریسرچ کو اپنا موضوع بنا سکتے ہیں۔ خدمت خلق سے متعلق کسی کام کا بیڑہ اٹھا سکتے ہیں جیسے ایدھی صاحب کمال کی خدمات تمام عمر کرتے رہے۔ اگر آپ کی مصروفیات اس حد تک جانے کی اجازت نہیں دیتیں تو آپ ایسی تنظیم میں شامل ہو کر اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ کوئی ایسا مقصد حیات بنا سکتے ہیں کہ اس کا معیار نوبل پرائز کی حدوں کو چھونے لگے ، کوئی ریسرچ کا کام یا کوئی ایجاد۔ شعبہ تعلیم سے منسلک افراد اس قسم کا ہدف رکھ سکتے ہیں اور اس طرح ان کا پیشہ ہی ان کے لئے مقصد حیات بن جائے گا۔

اسی طرح اپنے ذہنی رجحان کے مطابق مصوری کی جا سکتی ہے ممکن ہے آپ کے رنگ بکھیرنے کا انداز آپ کے ہاتھوں کسی شاہکار کی تخلیق کا باعث بنے۔ انشاء پردازی کیجیے، کوئی کتاب لکھیے۔ غرض کہ جتنے ذہن اتنے ہی میدان نظر آتے ہیں ، بس  میدان میں گھوڑا دوڑانے کی دیر ہے ، راہیں کھلتی جاتی ہیں۔

مقصد حیات پانے کے لئے پر خلوص کاوشیں کامیابی سے ضرور ہمکنار کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف دلی سکون ملتا ہے بلکہ ذہنی آسودگی بھی نصیب ہوتی ہے۔

ذرا تصور کیجیے کہ اگر ہم
سب یا ہماری اکثریت ایسا کرنے لگے تو ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments