کشمیر، حافظ خدا تمہارا!


آخر کار پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر فیصلہ کن پسپائی کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند روز قبل صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کرتے ہوئے مختلف اہم امور پر گفتگو کی اور پاکستان انتظامیہ کی انڈیا اور کشمیر سے متعلق نئی پالیسی پر روشنی ڈالی۔ سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں کہا کہ پہلے انڈیا پاکستان سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا، لیکن اب انڈیا جموں و کشمیر پر بات کرنے پر راضی ہو گیا ہے اور ”بیک ڈور چینل“ کھل گئے ہیں۔

آرمی چیف نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ’یو اے ای‘ میں ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی بڑی طاقت شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کی یہ بات چیت انڈیا کی خواہش پر ہو رہے ہیں، انڈیا چاہتا ہے کہ دونوں ملک بیٹھ کر بات چیت کریں، انڈیا اب پاکستان کو پہلا دشمن تصور نہیں کرتا بلکہ ان کی توجہ چین کی طرف ہے، انڈیا کا زیادہ فوکس چین کی طرف ہو گیا ہے، یا وہ پاکستان کے ساتھ ایل او سی پر فرنٹ بند کرنا چاہتے ہیں، یہ دونوں ملکوں کے لئے بہتر ہے کہ امن ہو، مذاکرات ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اوپن مائنڈ کے ساتھ انڈیا سے بات چیت کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے میں انڈیا کے روئیے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور ہم اس پر بات کر رہے ہیں، بات چیت کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں اور بہتر حل نکلے گا۔

آرمی چیف نے کہا کہ نئے آنے والے فوج کے سربراہ، اعلی افسران ”پیس انیشیٹوز“ کو آگے لے کر جائیں گے، اب اس میں ”ریورس“ نہیں ہو گا۔ اس ملاقات میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ ”آئی ایس آئی ’کے سربراہ جنرل فیض اور انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے درمیان ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور پہلے مرحلے میں دونوں ملکوں کے خفیہ ادارے بات چیت کریں گے اور اس کے بعد سیاسی رابطے ہوں گے۔ اس ملاقات میں یہ بھی بتایا گیا کہ اب“ اپروچ ”یہ ہے کہ چین کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کشمیر میں پھنس کر نہ رہ جائے، کشمیر پر اپنا دعوی رکھیں جس طرح چین نے تائیوان، ہانگ کانگ پر رکھا ہوا ہے، اگر ہم کشمیر کے مسئلے کو ذرا سیٹل کرتے ہیں،“ جو جہاں ہے، جیسے ہے ”کی بنیاد پر چلنے دیتے ہیں، انڈیا کشمیر میں ڈیموگریفک چینجز نہیں کرتا ہے، 35 A واپس لے آتا ہے، 370 کے معاملے پر بھی بات چیت کی جائے۔

یعنی اب پالیسی میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے کہ پاکستان کشمیر پر اتنا سخت سٹینڈ نہیں لے گا، ”سٹیٹس کو“ کی طرف زیادہ جائیں گے، یعنی انڈیا کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کی بحالی کی طرف جایا جائے، انڈیا کو وسط ایشیا تک راستہ دیا جائے۔ ملاقات میں یہ بھی کہا گیا کہ میڈیا آرمی، اسٹیبلشمنٹ کی اس ”موو“ کی حمایت کرے۔ پہلے مرحلے میں انٹیلی جنس کی سطح پر، پھر سیاسی سطح پر، کہ سیاسی نمائندے اس کی ”اونر شپ“ لیں، دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت بیٹھ کر بات کرے گی۔ آرمی چیف کی طرف سے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات اور انڈیا کو وسط ایشا تک راستہ دینے کی بات کی گئی۔

چیف آف آرمی سٹاف خارجہ، دفاع سمیت ملک کے اہم ترین فیصلوں میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ملک کی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی بڑی تبدیلی کی بات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت بد سے بد تر صورتحال سے دوچار ہے اور یہ بری اقتصادی حالت ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی پہ بھی نمایاں انداز میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ یوں خراب تر اقتصادی حالت کی وجہ سے خارجہ اور دفاعی پالیسی میں بڑی تبدیلی تو کی جا رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں حاکمیت کا محور و مرکز درست کیے بغیر اور سیاسی انتشار و کشمکش جاری رہتے ہوئے ملکی اقتصادی حالت کی بہتری کا ماحول بنایا جا سکتا ہے؟

بعض حلقے آرمی چیف کی صحافیوں سے ملاقات کی اس گفتگو سے یہ تاثر بھی لے رہے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی بہتری سے جبر اور تشدد سے دبائے گئے کشمیریوں کو کچھ رعایت دی جائے گی۔ یہ رعایت کیا ہو گی؟ اس کے کوئی آ ثار نظر نہیں آتے۔ آرمی چیف سے صحافیوں کے گروپ کی اس ملاقات میں یہ نہیں بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی بہتری کی اس مشق میں کشمیریوں کو کیا حاصل ہو گا اور ان پر انڈیا کے جبر کی صورتحال تبدیل کرتے ہوئے کشمیریوں کو کوئی اہمیت دی جائے گی یا انہیں جبری طور پر ہی ڈیل کیا جائے گا۔

مشرف دور میں بتایا گیا تھا کہ سوائے پانی کے، انڈیا سے کشمیر سمیت جنگ کا ہر آپشن ختم کیا جا رہا ہے۔ کشمیر اور انڈیا کے بارے میں سابقہ پالیسی بنانے والوں کی پالیسی ملک و عوام کے لئے غیر موثر اور نقصان دہ ثابت ہوئی ہے تو کیا ضمانت ہے کہ موجودہ پالیسی بھی ملک کو ناکامی اور نامرادی سے ہمکنار نہیں کرے گی؟ اگر پاکستان میں پالیسی اور فیصلے کا اختیار عوام کو حاصل ہوتا تو آج ملک کی اقتصادی حالت اتنی خراب نہ ہوتی کہ کشمیر میں نظریاتی سرحدوں کی حدود کم کرتے ہوئے پاکستان کی بقاء کی فکر میں محدود رہ جاتے۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اس بڑی تبدیلی کے باوجود یہی کہا جاتا رہے گا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان کو گزشتہ چند سال میں جس طرح داخلی انتشار میں مبتلا کرتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کیا گیا ہے، موجودہ انتظامیہ کی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ بے بسی اور بے چارگی کا کھلا اظہار ہے۔ جنرل مشرف کی فوجی بغاوت سے اب تک اختیار کی گئی پسپائی کے منطقی انجام کا منظر نامہ تیار کیا جا رہا ہے۔

ہندوستان کے بدترین جبر اور ظلم کا نشانہ بننے والے کشمیریوں کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ رابطوں سے نئی امید دکھانے کی کوشش نظر آ رہی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان نے غیر محسوس طور پر ڈرامائی انداز میں انڈیا اور کشمیر سے متعلق اپنی روایتی پالیسی میں کمزوری کے بھرپور تاثر کے ساتھ بنیادی نوعیت کی بہت بڑی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس طرح انڈیا نے جنرل مشرف حکومت کو چار نکاتی فارمولے کا ”لالی پاپ“ دیتے ہوئے کشمیر میں اپنے حق میں پاکستان سے کئی اقدامات کرا لئے، اسی طرح کہیں اب مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے جھانسے میں پاکستان سے ایسے اقدامات نہ کرا لئے جائیں کہ جن کے بعد 35 Aکو بحال کرنا یا نہ کرنا بے معنی ہو جائے گا۔ ”سٹیٹس کو“ پر مبنی کشمیر کے مسئلے کے حل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی ہیئت اور حیثیت کو بھی تبدیل کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں حاکمیت کا قبلہ و کعبہ تبدیل کرنے، مخصوص انداز میں مجبور و تابعدار سیاست کو یقینی بنانے کے اقدامات اور اب مقبوضہ جموں وکشمیر سے عملی طور پر لاتعلقی اختیار کیے جانے پر مبنی نئی پالیسی سے روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ واقعی یہ نیا پاکستان ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے کی ناقص پالیسیاں بھی ملک و عوام کے لئے مضر ثابت ہوئیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ تعلقات کی نئی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ٹھکانے لگانے کی نئی پالیسی ملک اور عوام کو کن نتائج سے ہمکنار کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments