تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اختلافات: عمران خان سے گورنر امان اللہ خان یٰسین زئی کو ہٹانے کا مطالبہ کس نے کیا اور وزیراعظم نے اسے کیوں تسلیم کیا؟

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کا رشتہ ضرورت کا ہے۔ اگرچہ دونوں جماعتیں صوبائی حکومت میں اتحادی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے درمیان کوئی اختلافات نہیں۔

تحریک انصاف بلوچستان کی مخلوط حکومت میں دوسری بڑی جماعت ہے جبکہ بی اے پی مرکز میں بھی تحریک انصاف کی اہم اتحادی ہے۔

لیکن ماضی میں جب بھی دونوں فریقین کے درمیان کوئی بدمزگی ہوئی تو تحریکِ انصاف کے کوئی اعلی عہدیدار، عموماً وزیرِاعظم خود، صلح صفائی کروانے کوئٹہ پہنچ جاتے اور ان کے دورے کے بعد حکومتی اتحاد میں کچھ دیر کے لیے ’جنگ بندی‘ ہو جاتی۔

تاہم گذشتہ ہفتے جب عمران خان 28 اپریل کو ایک روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے تو ان کا مقصد صلح کروانا نہیں بلکہ کوئی ٹھوس اقدام کرنا تھا۔

یہی وہ موقع تھا جب صوبائی سطح پر پارٹی کے عہدیداروں سے مشاورت کے بعد انھوں نے بلوچستان کے گورنر امان اللہ خان یٰسین زئی کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر منیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم نے اس ملاقات میں یہ بات مان لی کہ موجودہ گورنر بلوچستان کو تبدیل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے گورنر کو عہدہ چھوڑنے کے لیے جو خط بھیجا جاتا ہے، موجودہ گورنر کو وہ بھی بہت جلد مل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان حکومت میں اختلافات، دو وزرا سمیت چار اراکین کے وزیر اعلیٰ کو مراسلے

بلوچستان: سپیکر اور وزیر اعلیٰ کے اختلافات میں اضافہ

’محض فوٹوشاپڈ نہیں، بلکہ بہت بری فوٹو شاپڈ‘

یہ شاید پہلا موقع تھا کہ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کسی اہم سرکاری عہدے کے حوالے سے اپنا مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئی۔

وزیر اعظم کے دورے کے دوران جماعت کے بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند کی قیادت میں صوبائی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے اراکین اور سینیئر رہنماﺅں کی عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی جس کے دوران گورنر بلوچستان کو تبدیل کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔

’گورنر ہاؤس تک رسائی‘

تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے ترجمان بابر یوسفزئی نے بتایا کہ گورنر ہاﺅس تک پارٹی کے کارکنوں کو رسائی حاصل نہیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ گورنر کو تبدیل کر کے اپنی جماعت کا کوئی شخص اس عہدے پر لگایا جائے۔

تو اس ملاقات میں کیا ہوا؟ پارٹی کے سینیئر رہنما ڈاکٹر منیر بلوچ کے مطابق وزیر اعظم نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو ہی بلوچستان کا نیا گورنر بنایا جائے۔

گورنر کی تبدیلی کے علاوہ تحریک انصاف کی قیادت نے وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ساتھ ابھرنے والے اختلافات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس میں سردار یار محمد رند نے بجلی کے بحران کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عید کے بعد اسلام آباد جائیں گے اور وزیر اعظم سے بجلی کے مسئلے پر بات کریں گے۔

سردار یارمحمد رند تحریک انصاف بلوچستان کے صدر، صوبائی وزیر تعلیم اور اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی رہنما ہونے کے علاوہ وزیراعظم کے توانائی کے حوالے سے معاون خصوصی بھی ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ اگر اس ملاقات کے بعد بھی بلوچستان میں بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو وہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔

تحریک انصاف کے صوبائی صدر کے بیان کے بعد وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن شائستگی اور اخلاقی اصولوں کا پاس ہمیشہ رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ‘تحریک انصاف کے رہنما سردار یار محمد رند نے اسمبلی میں جو کچھ کہا وہ ان کی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے تاہم سردار یار محمد رند کا غصہ اور ان کی پارٹی کے رہنما وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تقریر ان کی اپنی خواہش ہے۔’

اتحادیوں کے مسائل

اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رضا الرحمان کا کہنا ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کی حمایت اور ساتھ چلنے کی اشد ضرورت ہے۔

تاہم ان کے خیال میں تحریک انصاف بلوچستان کو یہ شکایت ہے کہ دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے صوبائی حکومت میں پارٹی کا جو کردار اور حصہ ہونا چائیے، وہ اسے نہیں دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت کے قیام سے ہی اختلافات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سردار یار محمد رند اس طرح کا اظہارِ پہلے بھی کر چکے ہیں اور اگر وہ معاون خصوصی کا عہدہ اور صوبائی وزارت چھوڑنا چاہتے ہیں تو ان کو روکا نہیں جا سکتا تاہم سیاسی امور میں جذباتی اظہار سے گریز کرنا ہی مناسب ہے۔‘

ان کے مطابق سردار یار محمد رند نے وزیر اعلیٰ کے ریمارکس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور ان کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی گروپ کا جو اجلاس ہوا اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بلوچستان حکومت کے حوالے سے اپنی تحفظات سے وزیر اعظم کو آگاہ کریں گے اور ان کے دور ہونے تک وہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ نہیں جائیں گے۔

رضا الرحمان نے بتایا کہ اس فیصلے کے تحت سردار یار محمد رند کی قیادت میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی گروپ اور بعض دیگر سینیئر رہنماﺅں نے کوئٹہ میں وزیر اعظم سے ملاقات کی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بارے میں اپنی شکایات سے وزیر اعظم کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں پارٹی کا گورنر لایا جائے۔

رضاالرحمان کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں وزیر اعظم کے حالیہ دورے میں فرق یہ تھا کہ ‘پہلے جب وزیر اعظم کوئٹہ آتے تو بلوچستان حکومت کے حوالے سے تحریک انصاف کے جو تحفظات اور اختلافات ہوتے تھے ان کے حوالے سے خاموشی ہو جاتی لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ وزیر اعظم کے جانے کے بعد مخلوط حکومت کی لفظی جنگ میں مزید شدت آگئی۔’

اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں ایک اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں یہ کہا گیا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام ارکان اور کچھ اتحادیوں نے صوبائی وزیر سردار یار محمد رند کے خلاف شکایات کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اعلامیہ میں سردار یار محمد رند کی جانب سے سول سیکریٹریٹ میں محافظوں کو لے جانے پر بھی اعتراض کیا گیا۔

رضا الرحمان کے مطابق وزیر اعلیٰ اور تحریک انصاف بلوچستان کے اختلافات کیا رخ اختیار کریں گے، اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

تحریک انصاف گورنر بلوچستان کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟

بلوچستان کے موجودہ گورنر امان اللہ خان یٰسین زئی نے چار اکتوبر کو گورنر بلوچستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ اس سے قبل وہ 1997 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج اور 2005 میں چیف جسٹس بنے تھے۔

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث امان اللہ خان یٰسین زئی کو ان ججوں کے ساتھ استعفیٰ دینا پڑا تھا جنھوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد دوسری مرتبہ پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس کے عہدے کے بعد ان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رہا۔

تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر منیر بلوچ نے امان اللہ خان یسین زئی کو ہٹانے کی دوتین وجوہات گنواتے ہوئے کہا کہ جب وفاق میں کسی جماعت کی حکومت بنتی ہے تو صوبوں میں انہی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو گورنر کے طور پر لایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امان اللہ خان یٰسین زئی ایک اچھے انسان ہیں لیکن ان کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں۔

تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے ترجمان بابر یوسفزئی نے بتایا کہ دیگر تین صوبوں میں گورنروں کا تعلق تحریک انصاف سے ہے لیکن بلوچستان میں ایسا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگرصوبوں میں گورنر ہاﺅسز کے دروازے عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے کھلے ہیں لیکن اس کے برعکس بلوچستان میں یہ بات تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں نے یہ محسوس کیا کہ بلوچستان میں عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو گورنرہاﺅس تک رسائی حاصل نہیں۔

’اس بنیاد پر تحریک انصاف کی قیادت اورکارکنوں نے وزیر اعظم سے شکایت کی جس پر وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ یہ شکایت حق بجانب ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا یہ واضح نکتہ نظر بھی تھا کہ گورنر ہاﺅسز کو عوام کے لیے کھولیں اور پارٹی کارکنوں کو ان تک رسائی حاصل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بلوچستان میں تحریک انصاف حکومت کی دوسری بڑی اتحادی ہے اور پارٹی کا گورنر نہ ہونے سے ہمارے پارٹی کے مسئلے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے تو اس لیے وزیر اعظم نے یہ مناسب سمجھا کہ گورنر امان اللہ خان یٰسین زئی کو ہٹا کر تحریک انصاف کے کسی بندے کو گورنر متعین کیا جائے۔

اگلا امیدوار؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم نے گورنر بلوچستان کو ہٹانے کی نہ صرف بات مان لی ہے بلکہ تحریک انصاف بلوچستان کی قیادت کو نئے گورنر کے لیے تین نام تجویز کرنے کو بھی کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی ملی، اس لیے پارٹی کی صوبائی قیادت یہ چاہتی ہے کہ جو حکومتی عہدے ہیں ان کو پارٹی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جائے۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق جہاں تحریک انصاف کو اس وقت وزیر اعلیٰ سے شکایات ہیں وہیں پارٹی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورنر ہاﺅس بھی ان کے حق میں استعمال نہیں ہو رہا۔

انھوں نے سندھ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کراچی میں تحریک انصاف کے لوگوں کو گورنر ہاﺅس تک رسائی ہے، اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ کوئٹہ میں بھی گورنر ہاﺅس میں ان کو رسائی حاصل ہو اور یہ پارٹی کے لیے سود مند ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp