آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ ہمیں کچھ ‘سانس’ لینے کا موقع دیں: وزیرِ خزانہ شوکت ترین


وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین (فائل فوٹو)

پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ حکومت نے سخت شرائط کے باوجود انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کیا تاہم اب یہ پروگرام چل رہا ہے اور اس سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے 90 فی صد پروگرام ناکام ہو جاتے ہیں کیوں کہ آئی ایم ایف گلا اتنا دبا دیتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے اور ہم نے آئی ایم ایف سے یہی بات کرنی ہے کہ کچھ سانس لینے کا موقع دیں۔

بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ کرونا کی تیسری لہر جاری ہے اور حکومت عوام کو سہولت دینا چاہتی ہے۔ لہذٰا آئی ایم ایف کے اصرار کے باوجود بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ملک کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، ،ریونیو اور پاور سیکٹر ہمارے لیے اہم چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ حکومت کو 20 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ملا اور یہی 20 ارب ڈالرز کا خلا پر کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں حکومت نے اس پر بھی کام کیا، معیشت بہتری کی جانب گامزن تھی کہ کرونا آ گیا۔

‘معیشت چلے گی تو آئی ایم ایف کے اہداف پورے ہوں گے’

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ معیشت کا پہیہ چلے گا، پیداوار بڑھے گی تو ریونیو بڑھے گا، روزگار بڑھے گا تو آئی ایم ایف کے اہداف بھی حاصل ہوں گے۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ حکومت مقررہ ہدف کا 92 فی صد ریونیو اکھٹا کر رہی تھی، لیکن کرونا کی وجہ سے 57 فی صد پر آ گئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کو سہولت دے اور ٹیکس محصولات کا ہدف مقرر نہ کرے۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمیں کہا جائے کہ اسے تین ہزار ارب سے 5500 ارب تک لے جائیں۔

شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف نے قرض کے لیے سخت شرائط رکھیں جن کی سیاسی قیمت بھی ہے۔

اُن کے بقول “میرے گزشتہ دورِ وزارت میں آئی ایم ایف کے پاس گئے تو دنیا کو دہشت گردی کا سامنا تھا، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سے اچھا پروگرام ملا اور شرائط بھی نہیں تھیں لیکن موجودہ آئی ایم ایف پروگرام خاصا مشکل ہے اور اس کے قرض کی سیاسی قیمت بھی ہے۔”

مہنگائی اور عام لوگوں کے درپیش مسائل کے بارے میں شوکت ترین نے کہا کہ 70 کی دہائی میں ہم معاشی منصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔ اب ہم ایک مرتبہ پھر وہی منصوبہ بندی کرنے جارہے ہیں۔

‘مہنگائی کا اصل ذمے دار مڈل مین’

انہوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھانے میں اصل کردار آڑھتی یا مڈل مین کا ہے جس کی کمر توڑنا ہو گی، اس بارے میں ہم قلیل، وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

دوران بریفنگ ٹیکس نیٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حوالے سے انہوں نے تسلیم کیا کہ ایف بی آر کے ہراساں کرنے کی وجہ سے لوگ فائلر نہیں بننا چاہتے۔

وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں معاشی استحکام سے نکل کر شرح نمو میں اضافے کی جانب جانا ہے، جی ڈی پی گروتھ کو کم از کم پانچ فی صد پر رکھنا ہو گا۔ بجٹ میں یقینی بنائیں گے ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔

شوکت ترین نے کہا کہ 60 فی صد سے زائد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ ہمیں زراعت کے شعبے کو ترقی دینا ہو گی اور کسانوں کی پانی کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں ترقی سے بھی بہترین تبدیلی آسکتی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے کی گروتھ 65 فی صد ہے اس کو 100 فی صد پر لانا ہو گا۔ آئی ٹی کی ایکسپورٹ سالانہ آٹھ ارب ڈالرز تک ہو سکتی ہیں۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ملک میں اتنے پاور پلانٹس لگا دیے ہیں کہ یہ شعبہ گوریلا بن گیا ہے۔ ہمارے لیے کیپسٹی چارجز ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments