فیضان جتک: کوئٹہ میں ’بے گناہ‘ طالب علم کی ہلاکت کے بعد چار پولیس اہلکار زیر حراست، تحقیقات جاری

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


’رمضان شروع ہونے کے بعد فیضان جتک گھر سے نہیں نکلے تھے۔ پورے مہینے میں یہ پہلا دن تھا جب وہ اپنے ایک کزن کے ساتھ گھر سے گھومنے پھرنے اور عید کی خریداری کے لیے نکلے۔ لیکن فیضان زندہ واپس نہیں آئے بلکہ ان کی لاش گھر واپس لائی گئی۔‘

یہ کہنا تھا فیضان جتک کے بڑے بھائی محمود جتک کا جو کہ چار بھائیوں میں سب سے بڑے ہے۔

فیضان بدھ کی شب کوئٹہ شہر میں سریاب روڈ پر مبینہ طور پر پولیس کے ایگل سکواڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ ان کے کزن شہزاد زخمی ہوئے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایگل سکواڈ کے جن چار اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا ان کو باقاعدہ گرفتار کر کے ان کی ریمانڈ حاصل کر لی گئی ہے۔

حکومت بلوچستان نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں ایک پولیس آفیسر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فیضان جتک: ’گاڑی نہ روکنے پر سزائے موت؟ یہ کیسا نظام انصاف ہے‘

کوئٹہ میں سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ہونے والا دھماکہ خودکش حملہ تھا: وزیر داخلہ شیخ رشید

شب و روز ساتھ گزارنے والے دو دوست جو کوئٹہ دھماکہ کے بعد دنیا سے رخصت بھی اکٹھے ہوئے

فیضان جتک

فیضان جتک کی تدفین ان کے آبائی علاقے میں کی گئی ہے

فیضان جتک کون ہیں؟

فیضان جتک کوئٹہ شہر میں مشرقی بائی پاس کے رہائشی تھے۔ وہ چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔

محمود جتک کے مطابق فیضان ایک طالب علم تھے اور ان کی عمر سولہ یا سترہ سال تھی ۔وہ ہیلپر سکول سیٹلائٹ ٹاﺅن میں پڑھتے تھے اور حال ہی میں انھوں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی فیضان جتک انتہائی خوش مزاج تھے اور وہ ہر وقت اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

ان کے چچا زاد بھائی مرتضیٰ گل نے، جو کہ بلوچستان انسٹیٹیوٹ میں فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں، بتایا کہ فیضان نہ صرف ایک خوش اخلاق لڑکا تھا بلکہ ’جب ہم کزنز اور دیگر رشتہ دار اکٹھے بیٹھتے تھے تو فیضان مذاق وغیرہ کر کے محفل کو رونق بخشتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ سیر و سیاحت کے بہت شوقین تھے اور ’ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ چھٹیوں کے دن ہم کہیں نہ کہیں پِکنک وغیرہ پر جائیں۔ چھٹیوں کے دن ہم بولان اور دیگر علاقوں میں اکٹھے سیر و سیاحت کے لیے جاتے تھے۔‘

’چند دن قبل ان کا فون آیا اور کہا ملتے کیوں نہیں‘

مرتضیٰ گل نے بتایا کہ وہ کرکٹ کے بھی بہت شوقین تھے۔

’اگرچہ وہ کسی خاص ٹیم کا حصہ نہیں تھے لیکن وہ کرکٹ کے کھلاڑی تھے اور ہم لوگ اپنے علاقے میں ہی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔‘

ان کے پھوپھی زاد بھائی ارسلان جتک نے بتایا کہ فیضان ایک اچھے لڑکا تھے۔ ’ہمیں یاد نہیں ہے کہ انھوں نے کسی کی دل آزاری کی ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چند دن پہلے ان کا انھیں فون آیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ ملتے (کیوں) نہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ گھر آﺅ گپ شپ لگائیں گے۔ یہ ان سے میری آخری بات چیت تھی۔‘

’اس رمضان پہلی بار گھر سے نکلے‘

فیضان جتک کے بھائی محمود نے بتایا کہ رمضان شروع ہونے کے بعد فیضان کہیں ادھر ادھر نہیں نکلے بلکہ زیادہ تر گھر ہی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ بدھ کے روز وہ پہلا دن تھا جب عید کی خریداری وغیرہ اور تھوڑی دیر باہر گھومنے پھرنے کے لیے وہ گاڑی لے کر گھر سے نکلے۔ ’اس روز وہ گھر سے ایسے نکلے کہ وہ دن ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔‘

فیضان جتک

محمود کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی گھر کا ایک نوجوان فرد گھر سے باہر نکلے، وہ بیمار نہ ہو اور اچانک ان کی موت ہو تو اس گھر میں کیا حالت ہوتی ہے وہی حالت ہمارے گھر کی ہوگئی اور پورے گھر اور خاندان میں صف ماتم بچھ گئی۔‘

ان کے چچا زاد بھائی مرتضیٰ گل کا کہنا تھا کہ ’جب فیضان نکلے تو ان کے بھائی شہزاد کو اپنے ساتھ لے گئے۔‘

ارسلان جتک نے بتایا کہ ’ہم گھر میں تھے تو فون آیا کہ فیضان اور شہزاد کو پولیس والوں نے مارا ہے۔‘

’پہلے میں یہی سمجھا کہ جس طرح پولیس والے لوگوں کو ڈنڈے وغیرہ مارتے ہیں تو اسی طرح ان کو بھی کوئی ڈنڈا مارا ہوگا۔ لیکن میں گھر سے نکلا تو میرا بھائی روتا ہوا آرہا تھا اور انھوں نے یہ بتایا کہ فیضان کو تو پولیس والوں نے جان سے مار دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بے گناہ کو اس طرح نہیں مارنا چاہیے۔ ’یہاں تو جو لوگ دہشتگرد ہیں وہ کارروائی کر کے چلے جاتے ہیں جبکہ بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں۔‘

تحقیقات جاری، چاروں اہلکار زیر حراست

فیضان جتک کی ہلاکت اور ان کے چچا زاد بھائی کے زخمی ہونے کا واقعہ بدھ کو سریاب روڈ پر سدا بہار ٹرمینل کے قریب پیش آیا تھا۔

ان کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ان پر ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے فائرنگ کی تاہم فائرنگ کے فوراً بعد پولیس کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ’گاڑی نہ روکنے پر ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے فائرنگ کی۔‘

تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد سریاب پولیس نے ایگل سکواڈ کے چاروں اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا۔

رابطہ کرنے پر سریاب پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او خیر محمد نے بتایا کہ اب چاروں اہلکاروں کو باقاعدہ اس کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاروں اہلکاروں کا عدالت سے سات روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا ہے۔

دوسری جانب حکومت بلوچستان نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp