عالیہ اور عظمیٰ



اگلے وقتوں کی بات ہے۔ رات اپنے جوبن پہ تھی۔ رعایا محو خرام۔ بادشاہ سلامت پائیں باغ میں غسل مہتابی سے جی بہلا رہے تھے۔ دفعتہً اک کنیز پہ نظر پڑی اور دل مچل گیا۔ اشارہ ابرو سمجھ کر وزیر با تدبیر نے غلام زادی کو شاہی حرم میں بھیج دیا۔ سچ تو عالم الغیب ہی جانے وہ کنیز سچی خدا رسیدہ تھی یا کچھ اور۔ اس نے شاہ وقت کے حضور جرات انکار کیا اور کہا ظل سبحانی میں تمہارے باپ کے ساتھ خلوت نشیں رہی ہوں۔ بادشاہ کی طبیعت میں ہیجان و غضب شریعت آڑے۔

رات کے اسی پہر قاضی القضا کو بلا بھیجا۔ قاضی صاحب نے بادشاہ کی نیت بھانپ کر دلیل و منطق کی قینچی سے وہ فیصلہ کیا جس کی نظیر باید و شاید۔ بادشاہ اور اس کے حواری عش عش کر اٹھے۔ خوشی سے سرشار بادشاہ نے قاضی کے چہرہ پہ بوسہ دیا۔ قاضی نے عرض کیا حضور اکیلی عورت کی گواہی کون جانے کون مانے باقی حضور کا اقبال بلند۔ بادشاہ نے مسرت انگیز نظروں سے قاضی کو حکم دیا کل دربار آئیے اور انعام پائیے۔ قاضی عرض گزار ہوا حضور جس طرح میں نے شرع کا دروازہ آپ کے لیے رات کے اس وقت پہر کھولا ہے بخل سے کام نہ لیجیے خزانہ کا منہ بھی میرے لئے اسی وقت کھولیے۔

یہ غالباً 2009، 2008 کے قرب و جوار کی بات ہے جب ہم نے دبئی کے لیے رخت سفر باندھا۔ پہلے ماہ تو ہم جس بنک کے ملازم تھے اس کی طرف سے چار ستارہ ہوٹل میں قیام و طعام کا بندوبست تھا۔ اس کے بعد کہاں جائیں کہاں رہیں کچھ خبر نہیں۔ رہائش گاہوں کی قیمتوں اور عمارتوں کی اونچائیاں واقعتاً آسمان سے باتیں کرتی۔ ابراج کی بلندیاں ایسی کے سر اٹھا کر دیکھیں تو پکڑی پاؤں پکڑ لے۔ دیار غیر تھا کسی سے آشنائی شناسائی نہ تھی۔ مناسب اور سستی اقامت گاہ کی تلاش میں چند رفقائے کار کی صلاح اور مدد پہ جس جگہ ہم نے دبئی ڈیرہ لگایا وہ اس شہر کا مشہور زمانہ علاقہ تھا۔ مشہور اتنا کے جس کسی کو بتاتے اس جگہ رہتے ہیں وہ سمجھتا ہم شاید دبئی عیاشی کرنے آئے ہیں۔

سلسلہ روز و شب یونہی پیہم رواں رہا۔ کہیں دھوپ اتری کہیں دن ڈھلا۔ پہلے پہل جب کسی کو رہائش گاہ کا پتہ بتلایا اس نے حیرت و حسرت اور رشک آمیز نگاہوں سے ہمیں دیکھا۔ کچھ پارساؤں کے ماتھے پہ شکن بھی پہ نمودار ہوئے۔ کسی نے رہائشی علاقہ بدلنے کا مشورہ دیا۔ تب تک ہمارے فرشتہ کو بھی خبر نہیں کیا ماجرا ہے۔ یہ احتیاط و تکلف چہ معنی۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے تعجب کی وجہ ہم پہ بھی کھلنے لگی اٹھتے ہیں حجاب آخر۔ اس علاقہ میں پاکستانیوں کی اکثریت تھی۔ مگر ایشائی اور وسطی ایشیائی حسیناؤں کی بھی کمی نہیں۔ لانبے گیسو، دراز مژگاں، پری پیکر، چاند چہرہ، گلاب رخ، صراحی دار گردنیں، نیلگوں آنکھیں، ہرن چال۔ یہ اتفاق تھا، شرارت یا ملی بھگت ان قاتل حسیناؤں کے نام عموماً عالیہ یا عظمیٰ ہوتے۔

چشم ہوتو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
موقوف تیرے سننے نہ سننے پہ ہے یہ حال
قصہ میرا دراز بھی ہے مختصر بھی ہے۔
دنیا سنے تو قصہ غم ہے بہت طویل
ہاں تم سنو تو قصہ غم مختصر بھی ہے

انہی دنوں کے کئی چشم دیدہ واقعات ہیں۔ گفتنی ناگفتی کہانیاں ہیں۔ لکھنے بیٹھیں تو دفتر ہو جائے۔ کس کارن جی ہلکان کریں۔ تب کرکٹ کی اک نئی قسم شروع ہوئی تھا جس کو ٹونٹی ٹونٹی پکارا جاتا ہے۔ باقی یہ سرعت انگیز طرز کرکٹ کیا ہے سبھی کو معلوم ہے۔ جب وہ حسینائیں بازار سے گزرتی تو دیسی لونڈے لپاٹے، مشٹنڈے ٹونٹی ٹونٹی کی صدائیں لگاتے۔ ہم سمجھے شاید ان حسیناؤں کو کرکٹ کی نئی طرز کے متعلق آگہی فراہم کر رہے ہیں۔ پھر لگا شاید ان کی ہرنی جیسی تیز چال کو دیکھ کر یہ نعرے بلند ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا یہ ان کا وصول ہے خلق کنم بہانے ہزار۔

طبیعت میں ہمیشہ ان حسیناؤں کو لے کر دو باتوں پہ حیرانی رہی۔ اک ان میں عالیہ اور عظمیٰ کی اکثریت کیوں ہے۔ دوسرا یہ ٹونٹی ٹونٹی کا نعرہ کیوں ہے۔ بڑے عرصے بعد اک واقف حال نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ کہنے لگا جناب من یہ قاتل حسینائیں کوئی پیشہ ور نہیں۔ اس لیے مشٹنڈے انہیں ٹونٹی ٹونٹی کہہ کر پیسے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اور رہی بات عالیہ اور عظمیٰ کی تو ہر روز یہ اپنی عدالتیں لگاتی ہیں جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments